حد پار ہو گئی ہے: اسرائیلی حکام اور نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم
خلاصہ
بحیرہ روم اور دریائے اردن کے بیچ والے علاقے میں لگ بھگ اڑسٹھ لاکھ یہودی اسرائیلی اور اؚتنی ہی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔ یہ علاقہ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقے (او پی ٹی) پر مشتمل ہے۔ مؤخرالذکر میں مغربی کنارہ، بشمول یروشلم اور غزہ کی پٹی شامل ہے۔ زیادہ تر علاقے میں اسرائیل واحد حکمران اتھارٹی ہے، جبکہ بقیہ علاقے میں فلسطینیوں کو محدود اختیارات کی حامل جکومتؚ خود اختیاری حاصل ہے مگر وہاں بھی حقیقی طاقت اسرائيل کے پاس ہی ہے۔ ان تمام علاقوں میں اور زندگی کے زيادہ تر شعبوں میں اسرائیلی حکام نے یہودی اسرائیلیوں کو خصوصی رتبہ دے رکھا ہے جبکہ فلسطینیوں کے خلاف امتیاز برت رہے ہیں۔ قوانین، پالیسیوں اور اہم اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ آبادی میں ردوبدل، سیاسی طاقت، اور اراضی پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلّط کے تحفظ کو عرصہ طویل سے حکومتی پالیسی کے لیے رہنماء اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ ان ہدف کے حصول کے لیے، حکام نے فلسطینیوں کو اؙن کی شناخت کی وجہ سے بےدخل کیا، محصور کیا، زبردستی الگ تھلگ کیا اور اپنا محکوم بنایا۔ ریاستی ظلم کی شدّت مختلف رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں، جیسا کہ اس رپورٹ میں بیان ہے، یہ محرومیاں اتنی شدید ہیں کہ وہ نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے زؙمرے میں آتی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرم کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔
اؚن عام مفروضات کہ یہ قبضہ عارضی ہے، یہ کہ ''امن عمل'' جلد ہی اسرائیلی مظالم کا خاتمہ کر دے گا، یہ کہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کو اپنی زندگی پر بامعنی کنٹرول حاصل ہے، اور یہ کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کے اندر ایک منصفانہ جمہوریت ہے، نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے انتہائی سخت امتیازی حکمرانی کی حقیقت کو چھپایا ہوا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی آبادی کے کچھ حصے پر اپنی 73 سالہ طویل مدت سے ماسوائے چھ مہینوں کے، فوجی راج قائم کر رکھا ہے۔ اس نے اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کی غالب اکثریت پر یہ نظام 1948 سے 1966 تک نافذ کیے رکھا۔ 1967 سے اب تک، اس نے مشرقی یروشلم کے علاوہ او پی ٹی کے دیگر علاقوں میں مقیم فلسطینیوں پر فوجی نظام لاگو کر رکھا ہے۔ جبکہ اؚس کے بالکل برعکس، اسرائیل اپنے قیام سے ہی یہودی اسرائیلیوں پر اور 1967 میں قبضے کے آغاز سے او پی ٹی میں آباد یہودیوں پر اپنے حقوق کے حامل دیوانی قانون کے تحت نظامؚ حکومت چلا رہا ہے۔
گذشتہ 54 برسوں سے، اسرائیلی حکام یہودی اسرائیلیوں کو او پی ٹی میں آباد کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور جہاں تک شہریتی حقوق، اراضی تک رسائی، سفر، تعمیر، اور قریبی رشتہ داروں کی جائے رہائیش کے حقوق کا تعلق ہے تو اسرائیلی حکام نے قانون کے ذریعے اؙنہیں وہاں مقیم فلسطینیوں کے مقابلے میں فوقیت دی ہے۔ فلسطینیوں کو او پی ٹی میں محدود طاقت کی حامل حکومتؚ خود اختیاری کا حق حاصل ہے مگر سرحدوں، فضائی حدود، لوگوں و اشیاء کی نقل و حمل، سلامتی اور آبادی کے اندراج پر حقیقی کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے، قانونی مرتبے اور شناختی کارڈز کے حصول کی اہلیت کا تعین آبادی کے اندراج کی فہرست سے ہوتا ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔
کئی اسرائیلی عہدیداروں نے اس تسلط کو دوام دینے کے ارادے کا واضح اظہار کیا ہے اور عشروں پر محیط ''امن عمل'' کے دوران آبادکاری کی توسیع سمیت دیگر اقدامات سے اپنے اؚس ارادے پر عملدرآمد بھی کیا ہے۔ مغربی کنارے کے اضافی حصوں کا یکطرفہ الحاق ، جسے وزیرؚاعظم نتن یاہو نے برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا، منظّم اسرائیلی تسلّط اور جبر کی حقیقت کو باضابطہ شکل دے گا۔ تسلط اور ریاستی جبر جو طویل عرصہ سے جاری ہے یہ حقیقت تبدیل نہیں کر سکا کہ تمام مغربی کنارہ قبضے کے عالمی قانون کی رؙو سے ایک مقبوضہ علاقہ ہے بشمول مشرقی یروشلم کے جس کا اسرائیل نے 1967 میں یکطرفہ الحاق کیا تھا۔
عالمی فوجداری قانون نے منظم امتیاز اور استبداد جیسے حالات کے لیے انسانیت کے خلاف دو جرائم متعارف کیے ہیں: نسلی امتیاز اور ریاستی جبر۔ انسانیت کے خلاف جرائم عالمی قانون کی نظر میں سب سے گھناؤنے جرائم کی فہرست میں شامل ہیں۔
گذشتہ کچھ برسوں کے دوران میں عالمی برادری نے نسلی امتیاز کی اصطلاح کو اس کے اصلی جنوبی افریقی تناظر سے الگ کر کے، اس کے ارتکاب پر عالمگیر قانونی ممانعت عائد کی ہے اور اسے نسلی امتیاز کے جرم کی ممانعت و سزا کے عالمی کنونشن 1973 (نسلی امتیاز کنونشن) اور عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے قانونؚ روم 1998 میں دی گئی تعریفات کی روشنی میں انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔
ریاستی جبرکا جرم جو انسانیت کے خلاف جرم ہے اور قانونؚ روم کی رؙو سے نسلی، لسانی یا دیگر وجوہ کی بنا پر بنیادی حقوق کی دانستہ اور سنگین پامالی ہے، جنگؚ عظیم دوئم کے بعد ہونے والی عدالتی سماعتوں کے نتیجے میں متعارف ہوا۔ یہ جرم سنگین ترین عالمی جرائم کی صف میں شمار ہوتا ہے اور نسلی امتیاز کے جرم جتنا ہی گھناؤنا ہے۔
مملکتؚ فلسطین قانونؚ روم اور نسلی امتیاز معاہدے کی فریق ہے۔ فروری 2021 میں آئی سی سی نے کہا کہ مشرقی یروشلم سمیت او پی ٹی کے کسی بھی علاقے میں سرزد ہونے والے سنگین عالمی جرائم اؚس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اؚن جرائم میں علاقے میں نسلی امتیاز یا ریاستی جبر جیسے خلافؚ انسانیت جرائم بھی شامل ہیں۔ مارچ 2021 میں، آئی سی سی کے پراسیکیوٹر دفتر نے فلسطین میں صورتحال کی باضابطہ تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
نسلی امتیاز کی اصطلاح اسرائیل اور او پی ٹی کے تناظر میں کافی زیادہ استعمال ہو رہی ہے، مگر عام طور پر وضاحتی یا موازناتی، غیرقانونی انداز میں، اور زیادہ تر اس تنبیہ کے لیے کہ صورتحال غلط سمت کی طرف جاری رہی ہے۔ خاص طور پر، اسرائیلی، فلسطینی، امریکی، اور یورپی عہدیداروں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ معروف تبصرہ نگاروں اور دیگر نے زور دے کر کہا ہے کہ فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی پالیسیاں اور کاروائیاں اؚسی ڈگر پر جاری رہیں تو کم از کم مغربی کنارے میں صورتحال نسلی امتیاز کے مترادف ہو جائے گی۔ [1]0F0F0F0F0F بعض کا دعویٰ ہے کہ موجودہ صورتحال کو نسلی امتیاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ [2]1F1F1F1F1F البتہ، بعض نے نسلی امتیاز یا ریاستی جبر کے عالمی جرائم کی بنیاد پر مفصّل تجزیہ کیا ہے۔ [3]2F2F2F2F2F
اس رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے جائزہ لیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے زیرؚ کنٹرول بعض علاقوں میں کس حد تک حد پہلے ہی پار ہو چکی ہے۔
نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کی تعریفیں
ادارہ جاتی امتیاز کی ممانعت، خاص طور پر نسل، یا لسانی شناخت کی وجوہ پر،عالمی قانون کا بنیادی اصول ہے۔ زیادہ تر ریاستیں اس اؘمر پر متفق ہیں کہ اس طرح کے امتیاز کی بدترین اشکال مثال کے طور پر ریاستی جبر اور نسلی امتیاز انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں، اور آئی سی سی کو ایسے جرائم کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا اختیار ہے بشرطیکہ ملکی حکام ان پر کاروائی کرنے کے قابل نہ ہوں یا کاروائی کے لیے آمادہ نہ ہوں۔ انسانیت کے خلاف جرائم ایسے مخصوص مجرمانہ افعال پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایک ریاست یا ادارے کی پالیسی کے طور پر کسی عام شہری آبادی پر ایک وسیع تر منظّم حملے کا حصّہ ہوتے ہیں۔
نسلی امتیاز کے کنونشن کے مطابق، ''انسانیت کے خلاف جرم نسلی امتیاز سے مراد’ لوگوں کے کسی ایک نسلی گروہ کی طرف سے لوگوں کے کسی دوسرے نسلی گروہ کے خلاف ایسے افعال کا ارتکاب ہے جن کا مقصد اؙس گروہ کو دبانا اور اس پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے۔'' آئی سی سی کے قانونؚ روم نے بھی اس سے ملتی جلتی تعریف اختیار کی ہے: ''غیرانسانی افعال۔ ۔ ۔ جو کسی ایک نسلی گروہ کی جانب سے کسی دوسرے نسلی گروہ یا گروہوں پر تسلط قائم کرنے کی غرض سے ادارہ جاتی سطح پر منظّم جبر کی صورت میں انجام دیے جائیں۔'' قانونؚ روم نے کی اؚس سے زيادہ نہیں بتایا کہ کون سا فعل ''ادارہ جاتی جبر'' کے زمرے میں آے گا۔
نسلی امتیاز کے کنونشن اور قانونؚ روم کے تحت نسلی امتیاز کا جرم تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہے: کسی ایک نسلی گروہ کی دوسرے نسلی گروہ پر غلبہ پانے کی نیّت؛ کسی ایک نسلی گروہ کا دوسرے نسلی گروہ پر منظم جبر؛ اور اؙن پالیسیوں کے اطلاق کے لیے وسیع پیمانے یا منظم بنیادوں پر ایک یا ایک سے زائد غیرانسانی افعال کا ارتکاب۔
کنونشن یا قانونؚ روم میں تعریف شدہ غیرانسانی افعال میں ''جبری بےدخلی،'' اراضی پر قبضہ،'' الگ تھلگ علاقوں اور بستیوں کی تعمیر''، اور اپنا ملک چھوڑنے اور واپس آنے کے حق (اور) شہریت کے حق'' سے انکار شامل ہے
قانونؚ روم کی رࣳو سے، انسانیت کے خلاف جرم ریاستی جبر سے مراد ''نسلی، قومی یا لسانی شناخت سمیت دیگر وجوہ کی بنا پر، عالمی قانون کے برخلاف، کسی گروہ یا جماعت کی شناخت کی وجہ سے اؙس کے انسانی حقوق کی دیدہ و دانستہ اور سنگین پامالی کا ارتکاب ہے۔ رواجی عالمی قانون کی رو سے ریاستی جبر دو بنیادی عناصر پر مشتمل ہے: (1) وسیع تر پیمانے یا منظّم انداز میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی، اور (2) امتیازی سلوک کی نیّت کے ساتھ
چند ایک عدالتوں نے ریاستی جبر کے جرائم کی سماعت کی ہے مگر نسلی امتیاز کے جرم کی سماعت کسی عدالت نے نہیں کی جس کے باعث ہمیں ان جرائم کی تعریفات میں مذکور بنیادی اصطلاحات کے مفاہیم کے متعلق عدالتی نظائر دستیاب نہیں ہیں۔ جیسا کہ رپورٹ میں بیان ہے، عالمی فوجداری عدالتوں نے گذشتہ دو عشروں کے دوران گروہ کی شناخت کا جائزہ مقامی کرداروں کے تناظر و ساخت کی بنیاد پر لیا ہے جبکہ ماضی میں اؚس مقصد کے لیے موروثی جسمانی خدوخال کو سامنے رکھا جاتا تھا۔ نسلی امتیاز کی تمام اشکال کے خاتمے کے کنونشن (آئی سی ای آر ڈی) سمیت انسانی حقوق کے عالمی قانون میں نسلی اور لسانی امتیاز کی کافی کھؙلی تشریح کی گئی ہے اور دیگر اقسام کے علاوہ نسبی، قومی یا لسانی پس منظر کو بھی اؚس میں شامل کیا گیا ہے
فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی پالیسیوں پر اطلاق
اؚس وقت اسرائیل اور او پی ٹی میں دو بنیادی گروہ مقیم ہیں: یہودی اسرائیلی اورفلسطینی۔ ایک بنیادی مقتدرؚ اعلیٰ، اسرائیلی حکومت اؙن پر حکمرانی کر رہی ہے۔
تسلّط برقرار رکھنے کی نیّت
اسرائیلی حکومت کا ایک اعلانیہ مقصد پورے اسرائیل اور او پی ٹی میں یہودی اسرائیلیوں کا تسلّط یقینی بنانا ہے۔ کنیسٹ نے 2018 میں آئینی درجہ رکھنے والا ایک قانون منظور کیا جس میں اسرائیل کو ''یہودی عوام کی قومی ریاست'' قرار دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اس علاقے کی حدود میں، حقؚ خودارادیت ''یہودی عوام کے لیے انفرادیت کا حامل ہے''، اور ''یہودی آبادکاری'' کو قومی اصول کا درجہ بھی دیا گیا۔ یہودی اسرائیلیوں کے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیلی حکام نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں جن کے متعلق خود اؙنہوں نے کھلے عام کہا کہ اؚن کا مقصد فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کے ''خطرے'' سے نبٹنا ہے۔ فلسطینیوں کی آبادی اور سیاسی طاقت پر قدغنیں، رائے دہی کا حق صرف اؙن فلسطینیوں تک محدود کرنا جو 1948 سے جون 1967 تک والی اسرائیلی سرحدوں کے اندر رہتے ہیں، اور او پی ٹی سے اسرائیل تک اور کسی اور مقام سے اسرائیل اور اوپی ٹی تک سفر کرنے کے فلسطینیوں کے حق پر پابندیاں اؚن پالیسیوں کا حصّہ ہیں۔ یہودی غلبے کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے گئے دیگر اقدامات میں وہ ریاستی پالیسی شامل ہے جس کا مقصد مغربی کنارے اور غزہ مقیم فلسطینیوں کو ایک دوسرے ''جدا'' رکھنا ہے۔ اس پالیسی کی اصل غرض و غایت او پی ٹی میں لوگوں اور اشیاء کی نقل و حمل میں رکاوٹ پیدا کرنا، نیز اسرائیل کے علاقوں گلییلی اور نیگیو اور یروشلم سمیت ایسے علاقوں کو ''یہودی'' بنانا ہے جہاں فلسطینیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ اؚس پالیسی جس کا مقصد زمین پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلط کو بڑھانا ہے، کی بدولت اسرائیل کے بڑے یہودی اکثریتی شہروں کے باہر رہنے والے فلسطینی گنجان آباد، کم سہولیات والے مراکز تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کے حقؚ اراضی و رہائیش پر پابندیاں عائد ہیں، جبکہ قریبی یہودی بستیوں کی ترقی و افزائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
منظم ریاستی جبر اور ادارہ جاتی امتیاز
تسلّط کا ہدف حاصل کرنے کے لیے، اسرائیلی حکومت ادارہ جاتی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ امتیاز برت رہی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے طے کردہ مختلف ضوابط کی وجہ سے اؚس امتیاز کی شدت اسرائیل،، اور او پی ٹی کے مختلف علاقوں میں مختلف ہے۔ امتیاز کی سب سے بدترین شکل کا مظاہرہ اؚس وقت او پی ٹی میں ہو رہا ہے۔
او پی ٹی جسے اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک ہی علاقہ قرار دیتا ہے، میں اسرائیلی حکام فلسطینیوں ک ساتھ یہودی اسرائیلیوں کے مقابلے میں الگ اور غیرمساوی سلوک کر رہے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں، اسرائیل نے فلسطیینوں کو ظالمانہ فوجی قانون اور ایک دوسرے سے علیحدگی کے اصول کے ماتحت رکھا ہوا ہے۔ وہاں زیادہ تر فلسطینیوں کو یہودی بستیوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ محصور شدہ غزہ کی پٹی میں، اسرائیل نے عمومی بندش لاگو کر رکھی ہے، اور لوگوں و اشیاء کی نقل و حمل بہت زیادہ محدود کر دی گئی ہے۔ ان پالیسیوں کے منفی اثرات کے ازالے کے لیے کی غزہ کے دوسرے ہمسائے مصر نے کوئی بامعنی اقدام نہیں اٹھایا۔ ملحق شدہ یروشلم میں، جو اسرائیل کی نظر میں اس کا مقتدر علاقہ ہے مگر عالمی قانون کے تحت مقبوضہ علاقہ ہے، اسرائیل نے وہاں مقیم لاکھوں فلسطینیوں کی غالب اکثریت کو ایسا قانونی رتبہ دے رکھا ہے جس نے ان کے حقؚ رہائش کو شدید متاثر کیا ہے۔ وہاں ان کے یہ حقوق دیگر عوامل کے علاوہ، شہر کے ساتھ فرد کے روابط کے ساتھ مشروط ہیں۔ اس سطح کا امتیاز منظم ریاستی جبر کے مترادف ہے۔
اسرائیل جسے اقوام کی بڑی اکثریت 1967 سے قبل والی حدود پر مشتمل علاقہ سمجھتی ہے، میں شہریت اور قومیت کا دو اقسام کا نظام رائج ہے جس کے باعث قانون کی رو سے فلسطینی شہریوں کو یہودی شہریوں سے کمتر حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ، اسرائيل میں فلسطینیوں کو، او پی ٹی میں رہنے والوں کے برعکس، اسرائیلی انتخابات میں رائے دہی اور انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے مگر یہ حقوق انہیں اؙس ادارہ جاتی امتیازی سلوک سے تحفظ دینے میں مدد نہیں دے پا رہا جو اؙنہیں اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اس امتیازی سلوک میں ان کی ضبط شدہ زمینوں تک رسائی پر وسیع تر پابندیاں، گھروں کی مسماری اور خاندان کے دوبارہ ملاپ پر پابندی شامل ہے۔
فلسطینی آبادی کا بکھیر، جو کہ نقل و حرکت اور جائے رہائش پر پابندیوں کے ذریعے ایک لحاظ سے دانستہ طور پر کیا گیا اقدام ہے، نے تسلط کے ہدف کو تقویت دی ہے اور اس حقیقت کو چھپایا ہے کہ اصل میں یہ وہی اسرائیلی حکومت ہے جو مختلف علاقوں میں مختلف شدت کے ساتھ،ایک ہی یہودی اسرائیلی گروہ کے فائدے کی خاطر ایک ہی فلسطینی گروہ پر جبر کر رہی ہے۔
غیرانسانی افعال اور بنیادی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں
ان پالیسیوں کے حصول کی خاطر اسرائیلی حکام نے او پی ٹی میں کئی غیرانسانی افعال کیے۔ ان میں وہاں مقیم 57 لاکھ فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر شدید پابندیاں؛ ان کی زيادہ تر زمین کی ضبطی؛ انتہائی کٹھن حالات کا اطلاق بشمول مغربی غزہ کے کئی علاقوں میں تعمیرات کے اجازت نامے دینے سے انکار جس سے ہزاروں فلسطینی ان حالات میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے جنہیں جبری بےدخلی کہا جا سکتا ہے؛ لاکھوں فلسطینیوں اور ان کے رشتہ داروں کو جائے رہائش کے حقوق سے انکار، زیادہ تر باہر رہنے کی وجہ سے جب 1967 میں قبضہ شروع ہوا تھا، یا یا قبضہ کے ابتدائی چند عشروں کے دوران لمبے عرصہ تک باہر رہنے کی وجہ سے یا گذشتہ دو عشروں سے خاندانوں کے دوبارہ ملاپ پر حقیقی معنوں میں پابندی کی بدولت؛ اور بنیادی شہریتی حقوق کا تعطل مثال کے طور پر اجتماع اور انجمن سازی کی آزآدی، فلسطینیوں کو ان معاملات میں آواز اٹھانے کا موقع دینے سے انکار جو اؙن کی روزمرہ زندگی اور مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان میں سے کئی زیادتیوں بشمول تعمیراتی اجازت ناموں سے انکار، حقؚ رہائیش کی بڑے پیمانے پر منسوخیوں یا ان پر پابندیوں، اور زمین کی بڑے پیمانے پر ضبطیوں کو سلامتی کے نام پر کسی طور بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دیگر جیسے کہ نقل و حرکت اور شہریتی حقوق پر پابندیوں کی شدت سلامتی کے تحفظات اور حقوق کی پامالیوں کی شدت کے درمیان مناسب توازن کی شرط پورا کرنے میں ناکام ہیں۔
اسرائیلی ریاست کے قیام سے، حکومت ریاست کے 1967 سے پہلے والی حدود کے اندر مقیم فلسطینیوں کے ساتھ بھی امتیاز برت رہی اور ان کے حقوق پامال کر رہی ہے۔ اس حوالے سے دیگر زیادتیوں کے علاوہ، حکومت نے فلسطینیوں کو لاکھوں دونمز ( ایک ہزار دونم ایک سو ہیکٹر، لگ بھگ دو سو پچاس ایکٹر یا ایک مربع کلومیٹر کے برابر ہے) اراضی تک رسائی دینے سے انکار کر دیا ہے جو اؙن سے چھینی گئی تھی۔ نیگیو کے علاقے میں، ان پالیسیوں کی بدولت لاکھوں فلسطینی اؙن بستیوں میں قانون کے مطابق زندگی گزارنے سے قاصر ہیں جہاں وہ رہتے تھے۔ اؚس کے ساتھ ساتھ، اسرائیل نے اؙن 700,000 فلسطینیوں اور ان کی اولاد کو اسرائیل یا او پی ٹی واپس پلٹنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے جو 1948 میں اپنا علاقہ چھوڑ گئے تھے یا وہاں سے نکال دیے گئے تھے، اور قانونی جائے رہائش پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جس کی وجہ سے فلسطینی شادی شدہ جوڑے اور ان کے خاندان ایک ساتھ رہنے سے محروم ہیں۔
رپورٹ کے حقائق
اؚس رپورٹ میں او پی ٹی اور اسرائیل میں مقیم فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کی پالیسیوں اور اقدامات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ روا سلوک کا اؙنہی علاقوں میں مقیم یہودی اسرائیلیوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔ یہ انسانی حقوق کے عالمی قانون اور جنگی قانون کی ہر قسم کی خلاف ورزیوں کی مکمل تحقیق نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اس میں اسرائیلی حکومت کے اؙن بڑے اقدامات اور پالیسیوں پر کا جائزہ لیا گیا ہے جو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا سبب بن رہی ہیں اور جن کا مقصد یہودی اسرائیلیوں کے تسلط کو یقینی بنانا ہے۔ اور اس رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کی ان مذکورہ پالیسیوں و اقدامات کو نسلی امتیاز اور ریاستی جبر جیسے انسانیت کے خلاف جرائم کی تعریفوں کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی برسوں پر محیط تحقیق اور دستاویزسازی بشمول رپورٹ کے لیے کیے گئے فیلڈ ورک پر مبنی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی قوانین، حکومتی منصوبہ بندی کی دستاویزات، عہدیداروں کے بیانات اور اراضی کی دستاویزات پر بھی نظر دوڑائی تھی۔ پھر ان شہادتی دستاویزات کا نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم کے لیے طےشدہ قانونی اصولوں کی تناظر میں جائزہ لیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے جولائی 2020 میں وزیرؚاعظم نتن یاہو کو بھی لکھا تھا اور رپورٹ میں بیان معاملات پر حکومتی نقطہ نظر مانگا تھا مگر اس اشاعت کے جاری ہونے تک اؙنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
رپورٹ نے نسلی امتیاز کے حوالے سے اسرائیل کا جنوبی افریقہ کے ساتھ موازنہ نہیں کیا، نہ ہی یہ تعین کیا ہے کہ اسرائیل ایک ''نسلی امتیاز کی حامل ریاست'' ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کی عالمی قانون میں ہمیں تعریف نہیں ملتی۔ اس کی بجائے۔ رپورٹ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ آیا آجکل بعض علاقوں میں اسرائیلی حکام کے مخصوص اقدامات اور پالیسیاں عالمی قانون کے تجت نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے مترادف ہیں کہ نہیں۔
رپورٹ کے تینوں مرکزی ابواب میں فلسطینیوں پر اسرائیل کی حکمرانی کا احاطہ کیا گیا ہے: اس کی حکمرانی اور امتیازی سلوک کے پہلو، اور پھر نتیجتاً اسرائیل اور او پی ٹی پر نظر دوڑاتے ہوئے، انسانی حقوق کی مخصوص خلاف ورزياں جن کی یہ مرتکب ہوئی ہے، اور ایسی پالیسیوں کے پس پردہ عزائم کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ یہ کام جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم کے بنیادی عناصر کو مدؚنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ان علاقوں میں اسرائیلی حکمرانی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور اؙن دو مختلف قانونی نظاموں کو پیشؚ نظر رکھا گیا جو او پی ٹی اور اسرائیل پر لاگو ہیں۔ او پی ٹی اور اسرائیل قانونی لحاظ سے تسلیم شدہ دو علیحدہ خطّے ہیں۔ ہر ایک کا عالمی قانون کی رؙو سے مختلف درجہ ہے۔ اگرچہ ان دونوں خطّوں کے ذیلی علاقوں کے اہم حقائق میں پائے جانے والے فرق کو بیان کیا گیا ہے مگر یہ رپورٹ ذیلی علاقوں کا علیحدہ طور پر کوئی تجزیہ پیش نہیں کرتی۔
اس تحقیق کی بنیاد پر، ہیومن رائٹس واچ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسرائیلی حکومت پورے اسرائیل اور او پی ٹی میں فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلط کو برقرار رکھنے کی خواہاں ہے۔ او پی پی بشمول مشرقی یروشلم میں، یہ خواہش فلسطینیوں پر منظم جبر اور ان کے خلاف غیرانسانی افعال کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب یہ تینوں عناصر یکجا ہو جائيں تو پھر یہ نسلی امتیاز کا جرم قرار پاتے ہیں۔
اسرائیلی اہلکار ریاستی جبر جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی سلوک کے پیچھے اسرائیل کی بدنیتی اور او پی ٹی میں سنگین مظالم جن میں نجی زمینوں کی وسیع پیمانے پر ضبطی، کئی علاقوں میں تعمیرات یا رہائش پر عملی اعتبار سے پابندی، حقؚ رہائیش کی بڑے پیمانے پر پامالی اور نقل و حرکت کی آزادی اور بنیادی شہریتی حقوق پر دہائیوں سے عائد وسیع تر قدغنوں جیسے مظالم اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے خلاف ریاستی جبر کے جرم میں ملوث ہیں۔ حکام کی یہ پالیساں اور اقدامات سوچے سمجھے منصوبے اور انتہائی سفاکانہ طریقے سے لاکھوں فلسطینیوں کو اؙن کے بنیادی حقوق سے محروم کررہی ہیں۔ انہیں ان کی فلسطینی شناخت کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر انتہائی منظم انداز میں جن بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے ان میں حقؚ رہائش، نجی املاک، زمین، سہولیات اور وسائل تک رسائی کے حقوق بھی شامل ہیں۔
یہودی اسرائیلیوں کے لیے زیادہ زمین کا حصول اور فلسطینیوں کی آبادی کم رکھنے کی خواہش
اسرائیلی پالیسی اسرائیل اور او پی ٹی کے بعض علاقوں یہودیوں کی آبادی اور ان کی بستیوں کے لیے دستیاب زمین میں زيادہ سے زیادہ اضافے کی خواہاں ہے۔ بیک وقت، وہاں فلسطینیوں کے حقؚ رہائش کو محدود کر کے فلسطینی آبادی اور ان کے لیے دستیاب زمین میں کمی کرنا چاہتی ہے۔ اگرچہ جبر کی زیادہ بدترین صورت او پی ٹی میں نظر آتی ہے، مگر اسرائیل کے اندر بھی اسی طرح کی پالیسیوں کے قدرے کم ظالمانہ پہلو جا سکتے ہیں۔
مغربی کنارے میں حکام نے فلسطینیوں کی 20 لاکھ دونم سے زائد زمین ضبط کی ہے۔ یہ مغربی کنارے کا ایک تہائی رقبہ بنتا ہے اور اس میں لاکھوں دونم ایسی زمین بھی ہے جس پر حکام نے فلسطینیوں کی ملکیت تسلیم کی تھی ۔ ایک عام حربہ جو وہ استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ علاقے کو ''ریاستی اراضی'' قرار دیتے ہیں۔ ایسی اراضی کو بھی جو فلسطینیوں کی نجی ملکیت میں ہوتی ہے۔ اسرائیلی تنظیم اب امن (Peace Now) نے اندازہ لگایا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے لگ بھگ 14 لاکھ دونم اراضی، مغربی کنارے کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ریاستی اراضی قرار دے دیا ہے۔ تنظیم کو یہ بھ معلوم ہوا ہے کہ یہودی آبادکاری کے لیے استعمال ہونے والی اراضی کے 30 فیصد کے بارے میں اسرائیلی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی زیرؚملکیت تھی۔ سرکاری کوائف کے مطابق ،مغربی کنارے میں 675,000 دونم سے زائد اراضی جو اسرائیلی حکام نے تیسرے فریق کے استعمال کے لیے مختص کی تھی، کا 99 فیصد سے زائد حصہ اسرائیلی شہری استعمال کریں گے۔ بتسیلم (B’Tselem) کے مطابق، آبادکاری کے لیے اراضی پر قبضوں اور ڈھانچے کی تعمیرجس کا بنیادی طور پر آبادکاروں کو سہولیات بہم پہنچانا ہے، نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو ''165 'علاقائی جزیروں''' میں محصور کر دیا ہے جو ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے علاقہ سی جو کہ مغربی کنارے کا لگ بھگ 60 فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور اوسلو معاہدے نے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں دے دیا تھا میں، اور اس کے علاوہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے تعمیراتی اجازت ناموں کا حصول عملی اعتبار سے ناممکن بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، علاقہ سی میں، 2016 سے 2018 کے دوران فلسطینیوں کی طرف سے تعمیرات کے لیے جمع کروائی درخواستوں میں سے 1.5 فیصد سے بھی کم منظور ہوئیں۔ یہ تعداد اؙسی عرصے میں مسماری کے صادر شدہ احکامات سے 100 گنا کم ہے۔ اسرائیلی حکام نے ان علاقوں میں بلااجازت تعمیرات کے جواز پر ہزاروں فلسطینیوں کی املاک مسمار کی ہیں۔ اؘب امن نامی ادارے کے مطابق، اس کے برعکس، اسرائیلی حکام نے علاقہ سی میں اسرائيلی آبادکاریوں میں 2009 سے 2020 کے دوران 23,696 سے زائد رہائیشی یونٹوں کی تعمیر شروع کی۔ قابض طاقت کی شہری آبادی کی مقبوضہ علاقے میں منتقلی چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
یہ پالیسیاں اسرائیلی حکومت کے دیرینہ منصوبوں سے جنم لے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، 1980 کا دروبلز منصوبہ جس نے اس وقت مغربی کنارے میں حکومت کی آبادکاری پالیسی کے لیے رہنماء اصول کام کیا اور پہلے سے طے شدہ منصوبوں کی پیروی کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا کہ ''اقلیتی آبادی کے مراکز اور ان کے گردونواح کے درمیانی علاقے میں آبادکاری کی جائے۔''، اؚس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایسا کرنے سے ''فلسطینیوں کے لیے علاقائی جڑت اور سیاسی اتحاد پیدا کرنا مشکل ہوجائے گا۔'' اور ''یہودیا اور سمیریا کو ہمیشہ کے لیے کنٹرول کرنے کی ہماری نیت کے متعلق ہر قسم کا شک دور ہو جائے گا۔''
یروشلم بشمول شہر کا مغربی اور مقبوضہ مشرقی حصہ، کے لیے حکومتی منصوبے کا ہدف ''شہر میں غالب یہودی اکثریت قائم کرنا'' اور آبادی میں اس طرح کا ردوبدل کرنا ہے کہ وہاں '' یہودیوں کی تعداد 70 فیصد اور عربوں کی تعداد کا 30 فیصد'' ہو جائے۔ بعد میں حکام نے اعتراف کیا کہ '' آبادی کے رجحان کے تناظر میں اس ہدف کا حصول ناممکن ہے'' تو یہ تناسب 60 فیصد یہودی آبادی اور 40 فیصد عرب آبادی کے لحاظ سے طے کیا گیا۔
اسرائیلی حکومت نے اسرائیل کے اندر بھی امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے اراضی پر قبضے کیے ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق، حکام نے مختلف طریقہ ہائے کار اپناتے ہوئے فلسطینیوں سے کم از کم ساڑے چالیس لاکھ دونم زمین ہتھیائی ہے، یہ 1948 سے پہلے فلسطینیوں کی زیرؚملکیت تمام زمین کا 65 سے 75 فیصد رقبہ بنتا ہے اور 1948 کے بعد اسرائیل ہی میں رہنے والے اور اس کی شہریت حاصل کرنے والے فلسطینیوں کی زمین کا 40 سے 60 فیصد رقبہ بنتا ہے۔ حکام نے ریاست کے ابتدائی برسوں کے دوران بےدخل فلسطینیوں کی زمین کو ''غائب باش املاک'' یا ''بند فوجی علاقے'' قرار دیا اور پھر اس پر قبضہ کر کے اسے ریاستی زمین میں بدل دیا اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کر دیں۔ حکام نے فلسطینی شہریوں کو ان کی ضبط شدہ زمینوں تک رسائی سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 2003 کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق،''املاک ہتھیانے کی کاروائیاں صاف اور واضح طور پر یہودی اکثریت کے مفاد کے لیے کی گئیں''، اور ریاستی اراضی جو اسرائیل میں تمام اراضی کا 93 فیصد رقبے پر مشتمل ہے کا حقیقی منشاء ''یہودی بستیوں'' کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔ 1948 کے بعد سے اب تک، حکومت نے اسرائیل میں 900 سے زائد ''یہودی آبادیوں'' کی تعمیر کی اجازت دی ہے مگر فلسطینیوں کے لیے صرف چند سرکاری قصبوں اور دیہاتوں کی منظوری دی جن کا ایک بنیادی مقصد نیگیو میں مقیم ماضی میں بےدخل ہونے والے بدوؤں کو ان قصبوں اور دیہاتوں تک محدود کرنا ہے جو حکومت نے فلسطینیوں کے لیے مختص کیے ہیں۔
اسرائیل کے اندر فلسطینی میونسپلٹیوں کے اطراف میں اراضی کی ضبطیوں اور اراضی سے متعلق دیگر امتیازی پالیسیاں کارفرما نظر آتی ہیں۔ فلسطینی فطری پھیلاؤ کے مواقع سے محروم ہیں مگر یہ مواقع یہودی میونسپلٹیوں کے باشندوں کو حاصل ہیں۔ فلسطینی شہریوں کی بڑی اکثریت جو اسرائیلی آبادی کا تقریباً 19 فیصد ہے، ان میونسپلٹیوں میں رہتی ہے، جن کا رقبہ اسرائیل کی تمام اراضی کے تین فیصد سے بھی کم ہے۔ اگرچہ اسرائیل میں فلسطینی آزادانہ سفر کر سکتے ہیں اور کچھ 'مخلوط شہروں'' جیسے کہ ہائفہ، تل ابیب- جافہ اور ایکرے میں رہتے ہیں، مگر اسرائیلی قانون کی رو سے چھوٹے قصبوں کو اختیار ہے کہ وہ قصبے کے ''سماجی و ثقافتی ماحول'' سے عدمؚ مطابقت کی بنیاد پر نئے آنے والے باشندوں کو چاہیں تو وہاں رہنے کی اجازت نہ دیں۔ ٹیکنیون اسرائیل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ہائفہ کے ایک پروفیسر کی تحقیق کے مطابق، کیبٹوزم سمیت 900 سے زائد چھوٹے قصبے ہیں جنہیں اختیار ہے کہ وہ چاہیں کسی نئے باشندے کو وہاں رہنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیں۔ ان میں سے کسی ایک قصبے میں کوئی ایک بھی فلسطینی نہیں رہتا۔
اسرائیل کے علاقے نیگیو میں، اسرائیلی حکام نے 35 فلسطینی بدؙو بستیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے 90,000 یا زائد باشندے اپنی ان بستیوں میں قانونی طریقے سے رہنے کے قابل نہیں جہاں وہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔ اس کے برعکس، حکام نے بدو بستیوں کو قدرے بڑے قانونی طور پر تسلیم شدہ قصبوں میں محدود کرنا چاہا ہے تاکہ بقول حکومتی منصوبوں اور عہدیداروں کے بیانات کے، یہودی بستیوں کے لیے دستیاب اراضی بڑھائی جا سکے۔ اسرائیلی قانون ان غیرتسلیم شدہ دیہاتوں میں تمام عمارتوں کو غیرقانونی تصور کرتا ہے اور حکام نے زيادہ تر کو ملکی بجلی یا پانی سپلائی کے نظام سے منسلک کرنے یا ہموار شاہراؤں یا آب نکاسی کے نظام جیسا بنیادی ڈھانچہ بھی فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بستیاں سرکاری نقشوں پر دکھائی نہیں دیتیں، زیادہ تر میں تعلیمی مراکز نہیں ہیں، اور وہاں کے باشندے اپنے گھروں کی مسماری کے مستقل خطرے سے دوچار ہیں۔ سرکاری کوائف کے مطابق، اسرائیلی حکام نے 2013 سے 2019 کے دوران، 10,000 سے زائد بدو گھروں کو مسمار کیا۔ انہوں نے ایک غیرتسلیم شدہ گاؤں العراقیب جس نے اپنی اراضی کی ضبطی کو چیلنج کیا تھا، کو 185 بار زمین بوس کیا۔
حکام ریاست کے ابتدائی برسوں سے سرکاری منصوبوں کی پیروی میں ان پالیسیوں کا اطلاق کر رہے ہیں۔ یہ منصوبے یہودیوں کی آبادکاری کے لیے درکار زمین کے حصول کے لیے بدؙو بستیوں کو محدود کرنے کے خواہاں ہیں۔ وزیرؚاعظم بننے سے کئی ماہ قبل دسمبر 2000 میں ایریل شیرون نے اعلان کیا کہ کہ نیگیو میں بدؙو ملک کے زمینی وسائل کھا رہے ہیں''، جو کہ ان کے بقول ''آبادی میں ردوبدل کا مظہر۔'' ہے۔ بطورؚ وزؚیراعظم شیرون نے کئی ارب ڈالر مالیت کے ایک منصوبے پر عملدرآمد کرنا چاہا جس کا مقصد واضح طور پر اسرائیل کے علاقوں نیگیو اور گلیل میں یہودی آبادی میں اضافہ کرنا تھا۔ ان علاقوں میں فلسطینیوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ ان کے نائب وزیرؚاعظم شمعون پیریز نے بعد میں منصوبے کو ''یہودی عوام کے مستقبل کے لیے جنگ'' قرار دیا۔
نیگیو اور گلیل کو یہودی علاقہ بنانے کی شیرون کی کوشش غزہ سے یہودی آبادکار نکالنے کے حکومتی فیصلے کے تناظر میں سامنے آئی۔ وہاں یہودی آبادکاری ختم کرنے کے بعد، اسرائیل نے غزہ کو عملی اعتبار سے ایک ایسا عملداری علاقہ قرار دیا جس کی آبادی کو یہ اؙن یہودیوں اور فلسطینیوں سے باہر شمار کر سکتی ہے جو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم سمیت او پی ٹی کے کئی علاقوں میں مقیم ہیں جن پر اسرائیل اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اؙس وقت کے اسرائیلی عہدیداروں نے اس اقدام کے پیچھے آبادی میں ردوبدل کے مقاصد کا اعتراف کیا تھا۔ غزہ سے آبادکار نکالنے کی کاروائی کے دوران، اگست 2005 میں شیرون نے اسرائیلیوں سے خطاب میں کہا، ''غزہ کو ہمیشہ کے لیے نہیں رکھا جا سکتا۔ وہاں دس لاکھ سے زائد فلسطینی مقیم ہیں اور وہ ہر آنے والی نسل کے ساتھ اپنی تعداد دگنی کر رہے ہیں۔'' اؙسی ماہ، پیریز نے کہا، ''ہم غزہ سے آبادی سے متعلق حقائق کی وجہ سے نکل رہے ہیں۔''
اپنے آبادکار اور زمینی فوجی دستے نکالنے کے باوجود، اسرائیل اب بھی غزہ کے کئی اہم معاملات میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ وہ دیگر ذرائع سے اپنا غلبہ قائم رکھے ہوئے ہے جس وجہ سے ایک قابض طاقت کے طور پر قانونی فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے جیسا کہ عالمی کمیٹی برائے صلیبؚ احمر (آئی سی آر سی)، اور اقوامؚ متحدہ (یو این) کے علاوہ دیگر اداروں نے قراد دیا تھا۔ خاص طور پر، اسرائیل نے وہاں مقیم فلسطینیوں کے ایریز کراسنگ جس پر اس کا کنٹرول ہے، سے گزرنے پر پابندی عائد کی (چند ایک سخت مستثنیات کے ساتھ) اور غزہ اور مغربی کنارے کو''ایک دوسرے سے الگ رکھنے''کی پالیسی'' متعارف کی حالانکہ اسرائیل نے اوسلو معاہدے کے رؙو سے او پی ٹی کے ان دونوں علاقوں کو اجتماعی طور پر ''واحد علاقائی یونٹ'' تسلیم کر رکھا ہے۔ 2007 سےعائد عمومی سفری پابندی نے غزہ سے باہر سفر میں بہت زيادہ کمی لائی بنستاً اس سفر کے جو دو دہائیاں پہلے ہوتا تھا۔ یہ سفری پابندی انفرادی سطح پر کیے گئے سلامتی کے تجزیوں پر مبنی نہيں ہے اور سلامتی کے خدشات اور بیس لاکھ سے زائد افراد کے حقؚ سفر کی آزادی کے مابین توازن کے لازمی تقاضے کو پورا نہيں کرتی۔
حکام نے غزہ میں اشیاء کے داخلے و اخراج پر بھی سخت پابندی عائد کر رکھی ہے اور چونکہ مصر بھی اکثر اپنی سرحد بند کر دیتا ہے، جس کی وہج سے غزہ بیرونی دنیا سے حقیقی معنوں میں کٹ کر رہ گیا ہے۔ ان پابندیوں نے بنیادی سہولیات تک رسائی کو محدود کرنے اور معیشت کو برباد کرنے میں اہم کردا ادا کیا ہے، اور اس کی بدولت 80 فیصد آبادی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد پر منحصر ہے۔ غزہ میں مقیم لوگ حالیہ برسوں میں 12 سے 20 گھنٹوں تک بجلی کے مرکزی نظام سے بجلی کی سپلائی کے بغیر گزارہ کرتے ہیں۔ پانی کی دستیابی بھی بہت زيادہ کم ہے؛ اقوامؚ متحدہ کے مطابق، غزہ میں 96 فیصد سے زائد پانی ''انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں۔''
مغربی غزہ کے اندر بھی، اسرائیلی حکام فلسطینی شناختی کارڈز رکھنے والوں کو مشرقی یروشلم، علیحدگی والی باڑوں سے پار کے مقامات اور یہودی بستیوں اور فوج کے زیرؚکنٹرول علاقوں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، ماسوائے اس کے کہ وہ اجازت نامے حاصل کریں جن کا حصول بہت ہی مشکل ہے۔ انہوں نے لگ بھگ 600 مستقل رکاوٹیں بھی کھڑی کی ہیں۔ یہ رکاوٹیں زیادہ تر فلسطینی بستیوں کے درمیان ہیں جن کی وجہ سے فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگی تکالیف کا شکار ہے۔ اس کے بالکل برعکس، اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کو مغربی کنارے کے بہت سے ایسے علاقوں میں آںے جانے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے جو حکام کے قطعی کنٹرول میں ہیں، نیز انہیں مغربی کنارے سے اسرائیل جانے اور اسرائیل سے مغربی کنارے آنے کی بھی پوری آزادی ہے، اؙن شاہراہوں کے ذریعے جو ان کے سفر کی آسانی کے لیے اور اسرائیلی زندگی کے ہر شعبے کو آپس میں جوڑنے کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔
آبادیاتی معاملات کو اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے میں علیحدگی کی پالیسی میں مرکزی مقام حاصل ہے۔ خاص طور پر، شاذونادر کیسز میں جب وہ او پی ٹی کے دونوں علاقوں کے درمیان سفر کی اجازت دیتے ہیں تو اسرائیلی حکام زیادہ تر غزہ کی طرف سفر کی اجازت دیتے ہیں اور اس طرح وہ اؙن علاقوں سے آبادی کے انخلاء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جہاں اسرائیل یہودی بستیاں بسانے میں بہت زيادہ سرگرم ہے۔ اسرائیلی فوج کی سرکاری پالیسی کے مطابق مغربی کنارے کا باشندہ انسانی ہمدردی سے جڑے کسی بھی مقصد کے لیے (عام طور پر خاندان کے دوبارہ ملاپ کے لیے) غزہ کی پٹی میں مستقل طور پر دوبارہ آباد ہونے کی اجازت طلب کر سکتے ہیں، مگر غزہ کے باشندے ''انتہائی شاذوونادر کیسز میں''، عام طور پر خاندان کے دوبارہ ملاپ کے مقصد کی خاطر ہی مغربی کنارے میں آباد ہو سکتے ہیں۔ ان کیسز میں، حکام کو شادی شدہ جوڑوں کو غزہ میں آباد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ سرکاری کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے 2009 سے 2017 کے دوران غزہ کے کسی ایک بھی باشندے کو مغربی کنارے میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی ماسوائے اؙن مٹھی بھر افراد کے جنہوں نے عدالتؚ عظمیٰ میں پٹیشنیں دائر کی تھیں جبکہ مغربی کنارے کے درجنوں باشندوں کو اؚس شرط پر غزہ میں آباد ہونے کی اجازت دی کہ وہ تحریری عہد کریں کہ مغربی کنارے واپس نہیں آئیں گے۔
بندش کی پالیسی کے علاوہ، اسرائیلی حکام نے غزہ میں کشیدگیوں اور مظاہروں کے دوران بلاامتیاز تشدد اور جارحیت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ 2008 کے بعد سے، اسرائیلی فوج نے مسلح فلسطینی تنظیموں کے ساتھ تصادم کے تناظر میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تین جارحانہ کاروائیاں کی ہیں۔ جیسا کہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے، ان جارحانہ کاروائیوں میں شہریوں اور شہریوں سے وابستہ انفراسٹرکچر پر بظاہر دانستہ حملے بھی شامل ہیں جن میں 2,000 سے زائد شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی افواج فلسطینی مظاہرین اور دیگر افراد پر باقاعدگی کے ساتھ گولیاں چلاتی ہیں جب وہ غزہ اور اسرائیل کو الگ کرنے والی باڑ کی طرف آتے ہیں۔ یہ گولیاں اؙس وقت بھی چلائی جاتی ہیں جب اؙن کی وہاں موجودگی سے زندگی کو کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ صرف 2018 اور 2019 میں ایسے واقعات میں 214 مظاہرین کی زندگی ضائع ہوئی اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان کاروائیوں کے پیچھے کئی دہائیوں سے استعمال کی جانے والی بےجا اور غیرضروری طاقت ہے جو مظاہروں اور بدامنی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اور شہریوں کی بڑی تعداد اس کی بھینٹ چڑھتی ہے۔ کئی برسوں سے ایسے واقعات تواتر سے پیش آنے کے باوجود، اسرائیلی حکام قانون کے نفاذ کے ایسے طریقہ ہائے کار تخلیق نہیں کر سکے جو انسانی جقوق کی عالمی اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔
حقؚ رہائش اور قومیت پر امتیازی قدغنیں
فلسطینیوں کو او پی ٹی اور اسرائیل میں اپنے حقؚ رہائش اور قومیت کے حقوق پر امتیازی قدغنوں کا سامنا ہے۔ اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے اور غزہ میں آبادی کے اندراج کی فہرست پر اپنے کنٹرول کی وجہ سے سینکڑوں فلسطینیوں کو رہائش کا حق دینے سے انکار کیا ہے۔ یہ اؙن فلسطینیوں کی فہرست ہے جو اسرائيلی حکام کی نظر میں قانونی حیثیت پانے اور شناختی کارڈز کے حصول کے اہل ہیں۔ اسرائیلی حکام نے کم از کم 270,000 فلسطینیوں کے اندراج سے انکار کر دیا جو 1967 میں قبضے کی ابتدا کے وقت مغربی کنارے اور غزہ سے باہر رہائش پذیر تھے اور لگ بھگ 250,000 کی جائے رہائش منسوخ کر دی۔ اؙن میں سے زيادہ تر کی جائے رہائش اس وجہ سے منسوخ کی گئی کہ وہ 1967 سے 1994 کے دوران طویل عرصہ تک بیرونؚ ملک رہے تھے۔ سال 2000 کے بعد سے، اسرائیلی حکام نے خاندانوں کے دوبارہ ملاپ کی کئی درخواستوں یا مغربی کنارے اور غزہ میں پتہ کی تبدیلی کی متعدد فلسطینی درخواستوں پر غور کرنے سے انکار کیا ہے۔ درخواستوں پر عملدرآمد کے تعطل کی وجہ سے وہ فلسطینی اپنے شریکؚ حیات یا رشتہ داروں کو قانونی حیثیت دلوانے سے محروم ہیں جن کا پہلے سے اندراج نہیں ہے اور اسرائیلی فوج کے مطابق، غزہ کے اؙن ہزاروں باشندوں کی مغربی غزہ میں موجودگی غیرقانونی ہے جو عارضی اجازت ناموں پر آئے اور پھر یہیں مقیم ہو گئے کیونکہ عملی طور پر وہ اپنے پتے تبدیل نہیں کروا سکتے اور مغربی کنارے کے رہائشی کے طور پر اپنا پتہ درج کروانے سے قاصر ہیں۔ ان پابندیوں نے مغربی غزہ میں فلسطینی آبادی کو بہت زیادہ محدود کر دیا ہے۔
حکام ان غیررجسٹرڈ فلسطینیوں کو مغربی کنارے میں داخل نہیں ہونے دیتے جو مغربی کنارے میں رہتے تھے مگر عارضی طور پر (پڑھائی، روزگار، شادی، یا ديگر وجوہ کی بنا پر) کہیں اور چلے گئے، اور اس کے علاوہ ان کے غیررجسٹرڈ شریکؚ حیات اور دیگر اہلؚ خانہ کو بھی مغربی کنارے میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں مشرقی یروشلم کا الحاق کیا تو اؙن فلسطینیوں پر قانونؚ داخلہ 1952 کا اطلاق کیا جو وہاں رہتے تھے اور اؙنہیں ''مستقل باشندے'' کا درجہ دیا۔ اسرائیل منتقل ہونے والے غیریہودی غیرملکیوں کو بھی یہی درجہ دیا گیا تھا۔ تاہم وزارتؚ داخلہ نے 1967 کے بعد سے اب تک کم از کم 14,701 فلسطینیوں کی یہ حیثیت منسوخ کر دی ہے۔ زیادہ تر کی اس وجہ سے کہ وہ شہر میں ''زندگی کی مرکزی وابستگی''، ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسرائیلی شہریت کا راستہ موجود ہے، مگر بہت کم اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جنہوں نے حالیہ برسوں میں اس راستے کا انتخاب کیا ان میں سے زیادہ تر کو شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کے برعکس، یروشلم میں یہودی اسرائیلی، بشمول وہ جو مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں، شہری ہیں جنہیں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے شہر کے ساتھ کسی قسم کا تعلق ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اسرائیل کے اندر، اسرائیل کی آزادی کے اعلامیے نے تمام باشندوں میں ''مکمل مساوات'' کی تصدیق کی، مگر شہریت کا دو طرح کا نظام اس اعلامیے کے برخلاف ہے اور عملی اعتبار سے یہودی اور فلسطینیوں کو مختلف اور غیرمساوی تصور کرتا ہے۔ اسرائیل کے قانونؚ شہریت 1952 میں یہودیوں کو خودبخود شہریت کا حقدار بنانے کے لیے ایک الگ طریقہ کار دیا گیا ہے۔ اس قانون نے قانونؚ واپسی سے جنم لیا ہے جو دیگر ممالک کے یہودی شہریوں کو اسرائیل میں آباد ہونے کا حق فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس، فلسطینیوں کے لیے شہریت لینے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ وہ 1948 سے پہلے اس علاقے میں رہتے تھے جو اسرائیل بن چکا ہے، 1952 سے ان کا نام آبادی والی فہرست میں درج ہے، وہ مستقل طور پر اسرائیل میں مقیم ہیں یا 1948 سے 1952 کے عرصہ کے دوران اسرائیل میں قانونی طریقے سے داخال ہوئے تھے۔ حکام نے یہ زبان 700,000 سے زائد فلسطینیوں کو جائے رہائش سے محروم کرنے کے لیے استعمال کی ہے جو 1948 میں فرار ہو گئے تھے یا نکال دیے گئے تھے اور ان کی اولاد کو بھی جن کی تعداد آج 57 لاکھ سے زائد ہے۔ اس قانون نے ایسی حقیقت کو جنم دیا ہے جس کے مطابق کسی بھی ملک کا کوئی دوسرا شہری جو کبھی بھی اسرائیل نہ آیا ہو وہاں جا سکتا ہے اور اسے خودبخود شہریت مل جائے گی مگر اپنے گھر سے نکالا گیا فلسطینی اور کسی قریبی ملک کے پناہ گزین خیمے میں 70 برسوں سے گلنے سڑنے والا فلسطینی شہریت حاصل نہیں کر سکتا۔
قانونؚ شہریت 1952 وطن گیری (naturalization) کی بنیاد پر شہریت دینے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ البتہ، 2003 میں کنیسٹ نے قانونؚ شہریت و اسرائیل میں داخلہ (عارضی حکمنامہ) منظور کیا جو مغربی کنارے اور غزہ سے تعلق رکھنے والے ایسے فلسطینیوں کو شہریت یا طویل المدتی قانونی حیثیت دینے کی ممانعت کرتا ہے جو اسرائیلی شہریوں یا باشندوں سے شادی کرتے ہیں۔ یہ قانون جو اپنی ابتدا سے ہر سال توسیع اور اسرائیلی عدالتؚ عظمیٰ کی منظوری حاصل کرتا آ رہا ہے، چند ایک مستثنیات کے ساتھ، اسرائیل کے اؙن یہودی اور فلسطینی شہریوں کو اسرائیل میں اپنے شریک حیاتؚ کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دیتا جو کسی فلسطینی کے ساتھ شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ پابندی جو صرف اور صرف اؚس امر پر مبنی ہے کہ شریکؚ حیات کا تعلق مغربی کنارے یا غزہ سے ہے، اؙس وقت لاگو نہیں ہوتی جب اسرائیلی غیرملکی قومیتوں کے حامل غیریہودی افراد کو اپنا شریکؚ حیات بناتے ہیں۔ وہ فوری طور پر قانونی حیثیت لے سکتے ہیں اور کئی برسوں کے بعد شہریت کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
2005 میں قانون کی تجدید کے موقع پر تبصرہ کرتے ہوئے، اؙس وقت کے وزیرؚاعظم ایریل شیرون نے کہا: ''اب سلامتی کے دلائل کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں۔ اب یہودی ریاست کے وجود کی ضرورت ہے۔'' بنجمن نتن یاہو، جو اؙس وقت وزیرؚ خزانہ تھے نے کہا: ''فلسطینیوں کے لیے شہریت کا حصول آسان بنانے کی بجائے، ہمیں اسے اور زیادہ مشکل بنانا چاہیے تاکہ اسرائیل کی سلامتی اور اسرائیل میں یہودی اکثریت کو یقینی بنایا جا سکے۔'' مارچ 2019 میں، اؚس مرتبہ بطورؚ وزیرؚاعظم، نتن یاہو نے اعلان کیا،''اسرائیل اپنے تمام شہریوں کی ریاست نہیں''، بلکہ اس کی بجائے ''یہودی عوام اور صرف اؙن کی قومی ریاست ہے۔''
انسانی حقوق کا عالمی قانون حکومتوں کو اپنی امیگریشن پالیسیاں تشکیل دینے میں اچھی خاصی آزادی فراہم کرتا ہے۔ عالمی قانون میں ایسا کچھ بھی نہیں جو اسرائیل کو یہودی امیگریشن کے فروغ سے روکتا ہو۔ یہودی اسرائیلی جن میں سے بیشتر دنیا کے مختلف حصوں میں یہودیت مخالف ریاستی جبر سے بچنے کے لیے لازمی فلسطین یا بعدازاں اسرائیل میں منتقل ہوئے، اپنی سلامتی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے مستحق ہیں۔ البتہ، یہ آزادی ریاست کو ان لوگوں کے ساتھ امتیاز برتنے کا حق نہیں دیتی جو پہلے سے ملک میں رہ رہے ہیں۔ ریاست ان کے خاندان کے دوبارہ ملاپ کے حقوق کا احترام کرنے کی پابند بھی ہے، اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف امتیاز برتا جا سکتا ہے جن کے پاس ملک واپس پلٹنے کا حق ہے۔ فلسطینی اپنی سلامتی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے مستحق بھی ہیں۔
اسرائیلی اپنی پالیسیوں اور اقدامات کا کیا جواز پیش کرتے ہیں؟
اسرائیلی حکام اس رپورٹ میں بیان اپنی کئی پالیسیوں کو اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے تشدد کا ردؚعمل قرار دیتے ہیں۔ تاہم، کئی پالیسیوں مثال کے طور پر علاقہ سی، یروشلم اور اسرائیل میں نیگیو میں تعمیرات کے اجازت ناموں سے انکار، یروشلم کے باشندوں کے حقؚ رہائش کی منسوخی، نجی املاک کی ضبطی اور ریاستی زمینیوں کی امتیازی تخصیص کو سلامتی کے نام پر باجواز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ديگر بشمول قانونؚ شہریت و اسرائیل میں داخلہ، او پی ٹی کی آبادی کے اندارج کے تعطل کو سلامتی کے بہانے آبادی میں ردوبدل کے اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی حکام کے اسرائیل اور او پی ٹی میں سلامتی سے متعلق جائز تحفظات ہو سکتے ہیں۔ البتہ، جو پابندیاں نقل و حمل کی آزآدی جیسے انسانی حقوق اور سلامتی کے جائز تحفظات میں توازن پیدا نہیں کرتیں، وہ عالمی قانون کے تقاضوں کے برخلاف ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق اور سلامتی کے جائز تحفظات میں توازن پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی سطح پر سلامتی کا جائزہ لیا جائے ناکہ غزہ کی پوری آبادی کو ہی، چند شاذونادر مستثنیات کے ساتھ، باہر نکلنے سے ممنوع قرار دے دیا جائے۔ حتیٰ کہ کسی خاص پالیسی کے پیچھے سلامتی کا پہلو شامل ہو بھی تو پھر بھی اسرائیل کو تمام انسانی حقوق روندنے کی قطعی آزادی نہیں مل جاتی۔ سلامتی کے جائز تحفظات نسلی امتیاز کے زمرے میں آنے والی پالیسیوں کا حصہ ہو سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جس یہ ایک ایسی پالیسی کا حصہ ہو سکتے ہیں جو بےجا طاقت کے استعمال اور ایذارسانی کی اجازت دیتی ہو۔
عہدیدار بعض اوقات دعویٰ کرتے ہیں کہ او پی ٹی میں کیے گئے اقدامات عارضی ہیں اور امن کے معاہدے کی صورت میں منسوخ کر دیے جائیں گے۔ سابق وزیرؚاعظم لیوی ایشکول کے 1967 کے اس اعلان کہ ''مجھے صرف ایک نیم آزاد علاقہ (فلسطینیوں کے لیے) نظر آتا ہے، کیونکہ سلامتی اور زمین اسرائیلی ہاتھوں میں ہے،'' سے لے کر جولائی 2019 میں لیکوڈ پارٹی کے نتن یاہو کے اس بیان تک کہ ''اسرائیلی فوج اور سیکیورٹی فورسز اردن (دریا) تک پورے علاقے پر اپنی حکمرانی جاری رکھیں گی،'' کئی ریاستی عہدیداروں نے اپنا یہ ارادہ واضح کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے پر ہمیشہ کے لیے اپنی گرفت برقرار رکھیں گے، قطع نظر اس کے کہ فلسطینیوں پر حکمرانی کے لیے کیا انتظامات طے پاتے ہیں۔ ان کے اقدامات اور پالیسیاں اس گمان کو بھی زائل کرتی ہیں کہ اسرائیلی حکام قبضے کو عارضی سمجھتے ہیں۔ ان اقدامات اور پالیسیوں میں زمین کی ضبطی، علیحدگی کی باڑ کی اس انداز میں تعمیر کہ یہ یہودی آبادکاریوں کی متوقع افزائش میں مدد دے، نکاسیؚ آب کے نظام، اطلاعات و نشریات کے نظام، بجلی کے گرڈ، پانی کی فراہمی کے ڈھانچے اور شاہراہوں کے جال کا اسرائیل کے ساتھ باربط تعلق، مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی بجائے صرف اسرائیلی آبادکاروں پر لاگو ہونے والے قوانین شامل ہیں۔ یہ امکان کہ مستقبل میں کوئی اسرائیلی رہنما فلسطینیوں کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاہدہ کر سکتا ہے جس سے امتیازی نظام ختم ہو جائے اور منظم ریاستی جبر اپنے انجام کو پہنچ جائے گا موجودہ عہدیداروں کی موجودہ نظام برقرار رکھنے کی نیت کی نفی نہيں کر سکتا نہ ہی نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کی موجودہ حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے۔
سفارشات کا خلاصہ
اسرائیلی حکومت کو ہر قسم کے منظم تسلّط اور ریاستی جبر کی پالیسی کو ترک کرنا ہو گا جس کی وجہ سے یہودی اسرائیلیوں کو ترجیحی مرتبہ حاصل ہے اور فلسطینیوں کو منصوبہ بند ظلم کا سامنا ہے، اور فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ خاص طور پر، حکام کو شہریت، اور حقؚ رہائش ، شہریتی حقوق، نقل و حمل کی آزادی، زمین و وسائل کی تخصیص، پانی، بجلی، اور دیگر سہولیات تک رسائی اور تعمیراتی اجازت ناموں کی منظوری جیسے معاملات میں امتیازی پالیسیاں و اقدامات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ حقائق کہ نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے، اسرائیلی قبضے کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتے یا ان فرائض کو ختم نہیں کرتے جو قبضے کے قانون کے تحت اسرائیل پر عائد ، بالکل اس طرح جس طرح کہ انسانیت کے خلاف دیگر جرائم یا جنگی جرائم کے ارتکاب کے حقائق کی صورت میں ان فرائض کو نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ چنانچہ، اسرائیلی حکام مغربی کنارے اور غزہ میں بستیوں کی تعمیرات کا سلسلہ بند کریں اور موجودہ بستیاں گرائيں یا پھر دوسری صورت میں فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے، اور انہیں وہی حقوق فراہم کریں جو انہوں نے اسرائیلی شہریوں کو فراہم کر رکھے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں وہ تمام حفاظتیں بہم پہچائیں جن کے وہ جنگی قوانین کے تحت مستحق ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کو اسرائیلی فوج کے ساتھ سلامتی میں تعاون کی ان تمام صورتوں کو ختم کر دینا چاہیے جن سے نسلی امتیاز اور جبر جیسے انسانیت کے خلاف جرائم میں مدد مل رہی ہے۔
انسانیت کے خلاف جرائم کے حقائق کی بدولت عالمی برادری کو اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ جو فلسطینیوں پر منظم جبر ختم کروانے کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں پہلے ہی ناکام ثابت ہو چکا ہے، نے حالیہ برسوں کے دوران کچھ معاملات میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حمایت کی ہے۔ مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کے معاملے میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت اس کی ایک اہم مثال ہے۔ کئی یورپی ریاستوں اور دیگر ممالک نے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ پی اے کی استعداد بڑھا کر اور او پی ٹی میں اسرائیل کے سنگین مظالم سے خود کو دور رکھ کر اور بعض اوقات ان کی تنقید کر کے ''امن عمل'' کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ حکمتؚ عملی جو وہاں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے امتیازی سلوک اور جبر کی گہری جڑوں سے چشم پوشی کر رہی ہے، یہ گمان کر کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر رہی ہے کہ یہ خلاف ورزياں قبضے کی علامتیں ہیں جنہیں ''امن عمل'' بہت جلد دور کر دے گا۔ اس سوچ کی وجہ سے ریاستیں اس نوعیت کے محاسبے کی مزاحمت کرتی ہیں جس کی یہ سنگین صورتحال متقاضی ہے، اور یوں نسلی امتیاز کو اور زيادہ پھیلاؤ اور استحکام ملتا ہے۔ 54 برسوں کے بعد، ریاستوں کو چاہیے کہ وہ صورتحال کا اس انداز سے جائزہ لینا چھوڑ دیں کہ امن عمل شروع ہو گیا تو پھر کیا ہو گا بلکہ وہ طویل عرصہ سے موجود زمینی حقائق پر توجہ دیں جو بدلتے دکھائی نہیں دے رہے۔
عالمی سطح پر، نیز اسرائیل اور او پی ٹی کی سرحدوں سے باہر ملکی عدالتوں میں عالمگیر دائرہ اختیار کے اصول کے تحت ، انسانیت کے خلاف جرائم پر انفرادی مجرمانہ ذمہ داری کا اصول لاگو کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ اسرائیلی حکام انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ ترک کرنے میں کئی دہائیوں سے ناکام ثابت ہو رہے ہیں، لہذا عالمی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر دفتر کو تحقیقات کرنی چاہییں اور انسانیت کے خلاف جرائم جیسے کہ نسلی امتیاز اور ریاستی جبر میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی کرنی چاہیے۔ آئی سی سی کو اس معاملے پر اختیار حاصل ہے، اور پراسیکیوٹر نے او پی ٹی میں سنگین جرائم کی تحقیقات کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، تمام حکومتوں کو چاہیے کہ وہ عالمگیر دائرہ اختیار کے اصول کے تحت اور اپنے ملکی قوانین کی مطابقت میں تحقیقات کریں اور ان افراد کے خلاف مقدمے چلائیں جن کے اؚن جرائم میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہيں تاکہ مجرموں کو جواہدہ ٹھہرایا جا سکے۔
ہیومن رائٹس واچ مقتدر ریاستوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوجداری کاروائی کے علاوہ اقوامؚ متحدہ کے ذریعے ایک عالمی انکوائری کمیشن قائم کریں جو او پی ٹی اور اسرائیل میں گروہی شناخت کی بنیاد پر منصوبہ بند امتیاز اور ریاستی جبر کی تحقیقات کرے۔ انکوائری کمیشن کے پاس حقائق کے تعین اور تجزیے، سنگین جرائم بشمول نسلی امتیازاور جبر میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ، انکوائی کمیشن کے پاس جرائم سے متعلقہ شہادت اکٹھی اور محفوظ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تاکہ قابلؚ بھروسہ عدالتی فورم مستقبل میں اسے استعمال کر سکیں۔
ریاستوں کو اقوامؚ متحدہ کے ذریعے ایک عالمی نمائندے کی نشست بھی تخلیق کرنے چاہیے جو دنیا بھر میں ریاستی جبر اور نسلی امتیاز کے خلاف عالمی برادری کو متحرک کرنے کا کردار ادا کر سکے۔
ریاستوں کو اسرائیل کی نسلی امتیاز اور جبر کی پالیسیوں پر اظہارؚ تشویش کرنا چاہیے۔ انہیں اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہیں ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں، اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو اؚن سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
کاروباری حلقوں کے لیے اس رپورٹ کے حقائق کے اثرات پچیدہ ہیں ہونے کے ساتھ ساتھ رپورٹ کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ کاروباری حلقوں کو کم از کم یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ ایسی سرگرمیاں ختم کر دیں جو نسلی امتیاز اور جبر کے جرائم کے ارتکاب میں معاون ہیں۔ کمپنیوں کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ان کی مصنوعات اور خدمات نسلی امتیاز اور جبری کے جرائم کے ارتکاب میں مددگار تو ثابت نہیں ہو رہیں، جیسے کہ فلسطینی گھروں کی غیرقانونی مسماری میں استعمال ہونے والے آلات۔ اور کاروبار و انسانی حقوق پر اقوامؚ متحدہ کے رہنماء اصولوں کی روشنی میں ایسی مصنوعات اور خدمات کی فراہمی روک دینی چاہیے جن کا ایسے مقاصد کے لیے استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔۔
ریاستیں دیگر ضروری کاروائیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی پابندیوں کی پالیسی اپناتے ہوئے ان جرائم میں ملوث ریاستی عہدیداروں پر سفری پابندیاں لگائیں اور ان کے اثاثے ضبط کریں، اور اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کر دیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔
عالمی برادری صاف دکھائی دینے والے زمینی حقائق سے عرصہ طویل سے کنارہ کش رہنے اور آنکھیں چرانے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگ غزہ میں کھلے آسمان والی جیل میں، مغربی غزہ میں شہریتی حقوق کے بغیر، اسرائیل میں قانون کے اعتبار سے کمتر درجے کے ساتھ، اور ہمسایہ ممالک میں اپنے والدین اور اؘجداد کی طرح زندگی بھر کے مہاجر کی حیثیت سے جنم لے رہے ہیں، محض اس وہ سے کہ وہ فلسطینی ہیں، یہودی نہیں۔ اسرائیل اور او پی ٹی میں مقیم تمام افراد کی آزادی، مساوات، اور وقار کا حامل مستقبل اؙس وقت تک دھندلا رہے گا جب تک فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات ختم نہیں ہو جاتے۔
مفصّل سفارشات
ہیومن رائٹس واچ کی ان سفارشات کا ماخذ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی حکام نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کا مرتکب ہو کر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے زیرؚکنٹرول تمام علاقے میں فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کا تسلّط برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ او پی ٹی بشمول مشرقی یروشلم، میں فلسطینیوں کے خلاف منظم جبر اور غیرانسانی کاروائیاں بھی اس ارادے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اور یہ تینوں عناصر یکجا ہو جائيں تو پھر اؚس صورتحال کو نسلی امتیاز قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے ارادے اور او پی ٹی میں سنگین مظالم کا ارتکاب کرنے کے باعث نسلی تفریق کا مرتکب ہو رہے ہیں جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اسرائیلی ریاست سے مطالبہ ہے کہ وہ:
یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع بند کرے، موجودہ بستیاں مسمار کرے، مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم کی بستیوں میں آباد اسرائیلی شہریوں کو واپس اسرائیل کی اؙن حدود میں آباد کرے جنہیں عالمی قانون کی سند حاصل ہے۔
قانونؚ روم کی توثیق کرے اور انسانیت کے خلاف جرائم بشمول ریاستی جبر اور نسلی امتیاز کے قانون کو اپنے ملکی فوجداری قانون کا حصہ بنائے تاکہ ان جرائم کی تحقیقات اور ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی ہو سکے
- ریاستی جبر اور اور امتیاز کی ایسی تمام اقسام کا سلسلہ بند کرے جن کی وجہ سے یہودی اسرائیلیوں کو فلسطینیوں پر فوقیت حاصل ہے، اور یہودی اسرائیلیوں کے غلبے کو یقینی بنانے کے لیے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہیں، اور فلسطینیوں پر جبرواستبداد کا رجحان ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے شہریت، اور قومیت کے طریقہ ہائے کار، شہریتی حقوق کے تحفظ، نقل و حمل کی آزادی، زمین و وسائل کی تخصیص، پانی، بجلی، اور دیگر سہولیات تک رسائی اور تعمیرات کے اجازت ناموں کی منظوری جیسے معاملات میں امتیازی پالیسیاں اور کاروائیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
- فلسطینیوں بشمول اؙن کے جو او پی ٹی میں مقیم ہیں، کے انسانی حقوق کا مکمل تحفظ کرے ، نیز او پی ٹی میں مقیم فلسطینیوں کی ان حفاظتوں کو یقینی بنائے جو اؙنہیں جنگی قوانین کے تحت حاصل ہیں۔
- غزہ میں آنے جانے پر عمومی پابندی ختم کرے اور غزہ میں آمدورفت، خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے بیچ آمدورفت کی آزادی کو یقینی بنائے۔ اس حوالے سے، زيادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ سلامتی کے مقاصد کو مدؚنظر رکھتے ہوئے لوگوں کے معائنے اور تلاشی کا بندوبست یقینی بنایا جائے۔
- مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم جانے کی کھلی اجازت دے۔ اس حوالے سے، زيادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ سلامتی کے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کے معائنے اور تلاشی کا بندوبست کر دیا جائے۔
- تعمیرات کی منصوبہ بندی اور اجازت ناموں کے قوانین و ضوابط میں امتیازی پالیسی کا خاتمہ کرے۔ ان امتیازی قوانین و ضوابط کے تحت فلسطینیوں کو اجازت نامے دینے سے بے جا طور پر انکار کر دیا جاتا اور ان کی تعمیرات گرانے کے احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں۔
- فلسطینیوں کو زمین، رہائش اور ضروری سہولیات کی منصفانہ فراہمی یقینی بنائے۔
- علیحدگی باڑ کے حصوں کو مسمار کرے جو گرین لائن کی بجائے او پی ٹی کے اندر تعمیر کیے گئے ہیں۔
- مساوات کے اصول اور انسانی حقوق کے عالمی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ذیل سمیت دیگر امتیازی قوانین اور قانونی دفعات ختم کرے:
- قانونؚ شہریت اور اسرائیلی میں داخلہ (عارضی حکمنامہ) 2003 جو اسرائیلی شہریوں اور باشندوں کو اپنے غیراسرائیلی شریک ؚحیات کے لیے قانونی درجہ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے تاہم اگر شریکؚ حیات مغربی کنارے اور غزہ سے تعلق رکھتا/رکھتی ہے تو اؙس صورت میں، چند ایک مستثنیات کے ساتھ، اؙنہیں یہ اجازت نہيں دیتا۔
- ایڈمیشن کمیشنز لاء 2011 کی دفعات اسرائیل کے چھوٹے قصبوں کے باشندوں کو باہر سے آنے والے ممنکہ رہائشیوں کے ساتھ ان کی نسل، لسانی شناخت اور قومی پس منظر کی بنیاد پر امتیاز برتنے کی اجازت دیتی ہیں۔
- بنیادی قانون کی دفعات: اسرائیل یہودی عوام کی قومی ریاست۔ یہ دفعہ حقؚ خودارادیت اور حقؚ رہائش کے حوالے سے یہودیوں اور غیریہودیوں کے مابین امتیاز برتتی ہے۔
- مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں اور اؙن کے اہلؚ خانہ کے حقؚ رہائشی پر بے جا پابندیاں ہٹائے۔ اس حوالے سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کی جائے رہائش کی منسوخی کا رجحان ترک کیا جائے، مغربی کنارے اور غزہ میں خاندانوں کے دوبارہ ملاپ پر سال 2000 سے عائد پابندی ختم کی جائے اور فلسطینیوں کو او پی ٹی کے دیگر حصوں میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے اور ان کا پتہ درج کیا جائے۔
- اؙن فلسطینیوں اور اؙن کی اولاد کے حق کو منظوری و عزت بخشی جائے جو 1948 میں اپنے گھربار چھوڑ گئے تھے یا جنہیں اپنے گھر بار سے نکال دیا گیا تھا، انہیں اسرائیل میں داخل ہونے اور ان علاقوں میں رہنے کا حق دیا جائے جہاں وہ یا اؙن کے خاندان رہتے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک الگ پالیسی دستاویز میں اس معاملے کو بیان کیا ہے جس میں اؙن مقامات پر یا او پی ٹی میں اور دیگر مقامات پر نوآبادکاری کے طریقہ ہائے کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 866F865F865F865F865F[4]
- اقوامؚ متحدہ کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ تعاون کرے اور ان کی سفارشات پر توجہ دے۔
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن سے مطالبہ ہے کہ وہ:
ایڈووکیسی کی ایسی حکمتؚ عملی اپنائے جس کا مرکزی نقطہ فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا مکمل تحفظ ہو، نہ کہ ایسا نقطہ جو کوئی خاص سیاسی نتیجہ نکلنے تک انسانی حقوق کے تحفظ کو مؤخر کرنے پر زور دے۔
فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- اسرائیلی فوج کے ساتھ سلامتی سے متعلق ہر قسم کا تعاون ختم کرے جس سے او پی ٹی میں نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم میں مدد مل رہی ہو۔
- نسلی امتیاز اور ریاستی جبر سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کو ملکی فوجداری قانون کا حصہ بنائے۔
عالمی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر دفتر سے
ایسے افراد کے متعلق تحقیقات کرے ان کے خلاف قانونی کاروائی کرے جن کے نسلی امتیاز اور جبر جیسے انسانیت کے خلاف جرم میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں۔
اقوامؚ متحدہ کے اراکین سے
اقوامؚ متحدہ کے ذریعے ایک عالمی انکوائری کمیشن قائم کریں جو او پی ٹی اور اسرائیل میں گروہی شناخت کی بنیاد پر منصوبہ بند امتیاز اور ریاستی جبر کی تحقیقات کرے۔ انکوائری کمیشن کے پاس حقائق کے تعین اور تجزیے، سنگین جرائم بشمول نسلی امتیازاور ریاستی جبر میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تاکہ مجرموں کو جواہدہ ٹھہرایا جا سکے، اور اس کے ساتھ جرائم سے متعلقہ شہادت اکٹھی اور محفوظ کرنے کا اختیار ہو تاکہ مستقبل میں اسے قابلؚ بھروسہ عدالتی فورم استعمال کر سکیں۔ انکوائری کا دائرہ اختیار اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ دیگر عناصر بشمول کمپنیوں اور دیگر ریاستو ں کے عہدیداروں کے کردار کو بھی دیکھا جا سکے۔
- عالمی انکوائری کمیشن کے اخذشدہ حقائق کے جائزے اورکمیشن کی سفارشات کی پاسداری پر مستقل نظر رکھنے اور مزید ضروری کاروائی تجویز کرنے کے لیے اقوامؚ متحدہ کی رکن ریاستوں کی نمائندہ کمیٹی تشکیل دیں۔
- اقوامؚ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اؚس معاملے پر تعطل کے پیشؚ نظر، یا سفارش پیش کریں کہ ریاستیں اور بین الریاستی اتحاد دیگر ضروری کاروائیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی پابندیوں کی پالیسی اپناتے ہوئے نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم میں ملوث ریاستی عہدیداروں پر سفری پابندیاں لگائیں اور ان کے اثاثے ضبط کریں، اور اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کریں کہ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لیں تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہیں ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں، اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو اؚن سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
- اقوامؚ متحدہ کے ذریعے ایک عالمی نمائندہ کی نشست قائم کریں جو دنیا بھر میں ریاستی جبر اور نسلی امتیاز کے خلاف عالمی برادری کی کاروائی کو متحرک کرنے کے لیے ریاستی جبر اور نسلی امتیاز کے جرائم کی تحقیقات کریں۔
- جب عالمی نمائندہ کا چناؤ ہو جائے تو پھر اقوامؚ متحدہ کی سلامتی کونسل کو سفارش کرے کہ وہ مشرقؚ وسطیٰ کی صورتحال پر ہونے والے سہ ماہی اجلاسوں میں مدعو کرے۔
سب ریاستوں سے مطالبہ ہے کہ وہ:
اسرائیل کی نسلی امتیاز اور جبر کی پالیسیوں پر اظہارؚ تشویش کریں۔
اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لیں تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہیں ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں، اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو اؚن سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
سنگین عالم جرائم بشمول نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرم میں ملوث عہدیداروں اور اداروں کے خلاف دیگر ضروری کاروائیوں کے ساتھ ساتھ اؙن پر سفری پابندیاں لگائیں اور ان کے اثاثے ضبط کریں۔
اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کریں کہ اسرائیلی حکام نسلی امتیاز اور ریاست جبر کے جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔
نسلی امتیاز اور ریاستی جبر سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کو ملکی فوجداری قانون کا حصہ بنائے تاکہ ان میں ملوث افراد کے متعلق تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی ہو سکے۔
عالمگیر دائرہ اختیار کے اصول کے تحت اور اپنے ملکی قوانین کی مطابقت میں تحقیقات کریں اور ان افراد کے خلاف مقدمے چلائیں جن کے ریاستی جبر اور نسلی امتیاز کے جرائم میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہوں
مطبوعات، رپورٹس اور پالیسی دستاویزات شائع کریں جن میں اسرائیل سے یہ مطالبات بھی ہوں کہ وہ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں کو کم از کم وہ شہریتی حقوق ضرور دے جو اس نے اپنے شہریوں کو دے رکھے ہیں، اور اس بنیاد پر اسرائیل کے رویے کا جائزہ بھی لیں، جیسا کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک الگ رپورٹ ان معاملات کو اجاگر کیا ہے۔ 867F866F866F866F866F[5]
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- اسرائیلی حکام کی جانب سے نسلی امتیاز اور جبر کے جرائم کے ارتکاب پر اظہارؚ تشویش کریں۔
امریکہ محکمہ ہائے ریاست، دفاع اور خزانہ سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کریں کہ اسرائیلی حکام نسلی امتیاز اور ریاست جبر کے جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے ۔
- یہ چھان بین کرے کہ امریکی ساختہ ہتھیار اور/یا آلات، یا امریکی فنڈز سے خریدے گئے اسرائیلی ہتھیار اور/یا آلات کہیں نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم یا عالمی انسانی حقوق یا جنگی قانون کی خلاف ورزی میں معاون تو ثابت نہیں ہو رہے، اور اس چھان بین کی رپورٹ جاری کرے۔ کب کبھی مستقبل میں مزید فنڈز دیے جائیں تو پھر غیرملکی امداد قانون 1961، 22، یو ایس سی 2378ڈی اور سیکشن 360، عنوان 10، یوایس کوڈ(لیہی قوانین) کی پاسداری کرتے ہوئے یقینی بنائے کہ ان یونٹوں کو فنڈز نہ ملیں کے جن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے متعلق ٹھوس معلومات ہوں
- گلوبل میگنٹسکی اکاؤنٹبلٹی ایکٹ 2016، انتظامی حکمنامہ 13818، اور محمکہ ریاست، غیرملکی کاروائیاں، اور متعلقہ پروگرامز تصرفات ایکٹ 2109 کے سیکشن 7031(ج) کی رو سے، اسرائیلی عہدیداروں پر ویزا پابندیاں لگائے اور ان کے اثاثے ضبط کرے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بشمول نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم میں ملوث ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- اسرائیلی حکام کی جانب سے نسلی امتیاز اور جبر کے جرائم کے ارتکاب پر اظہارؚ تشویش کرے۔
- اگر امریکی انتظامیہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کرنے میں ناکام رہے کہ اسرائیلی حکام نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ تو پھر کانگریس کے اس حوالے سے مناسب قانون سازی کرنی چاہیے۔
- حکومتی جواہدہی دفتر (جی اے او) سے اس بارے رپورٹ دینے کی درخواست کرے کہ اسرائیل کو امریکی امداد بشمول فنڈز، ہتھیار، اور آلات نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے جرائم میں کس طرح مددگار ثابت ہو رہے ہیں؛ درخواست کرے کہ جی اے او اپنی رپورٹ میں یہ تحقیقات بھی شامل کرے کہ محکمہ ریاست اور دفاع اسرائیلی انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے فوجی یونٹوں پر کس حد تک نظر رکھ سکتے ہیں۔
- یقینی بنائے کہ محمکہ ریاست اور دفاع میں لیہی قوانین کی پاسداری پر ماور تمام دفاتر کے پاس مناسب فنڈنگ اور عملہ ہو۔
یورپی یونین اور اس کی رکن ریاستوں سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- اسرائیلی حکام کی جانب سے نسلی امتیاز اور جبر کے جرائم کے ارتکاب پر اظہارؚ تشویش کریں۔
- نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے اخذشدہ حقائق کے ای او اور رؙکن ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر پڑنے والے اثرات کے متعلق مفصل چھان بین کرے۔ خاص طور پر، قانونی نتائج ای یو کے تحت اور نیز، ای یو، رکن ریاستوں اور ای یو میں واقع نجی کاروباری حلقوں پر عالمی قانون کے تحت اور فرائض کی نشاندہی کی جائے، اور مناسب اقدامات تجویز کیے جائيں، اور چھان بین کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے۔
- انہیں اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لیں تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہیں ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں، اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کریں جو اؚن سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
- اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کریں کہ اسرائیلی حکام اپنے اؚن جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔
- اقوامؚ متحدہ کے ذریعے ایک عالمی انکوائری کمیشن کے قیام کی حمایت کریں جو او پی ٹی اور اسرائیل میں گروہی شناخت کی بنیاد پر منصوبہ بند امتیاز اور ریاسی جبر کی تحقیقات کرے۔
- اقوامؚ متحدہ کے ذریعے ایک عالمی نمائندہ کی نشست کی تشکیل کی حمایت کریں جو دنیا بھر میں ریاستی جبر اور نسلی امتیاز کے خلاف عالمی برادری کی کاروائی کو متحرک کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔
سنگین عالمی جرائم بشمول نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے ارتکاب کا سلسلہ جاری رکھنے کے کام میں ملوث افراد اور اداروں کے پر مخصوص پابندیاں لگائیں۔
یورپی پارلیمان سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- یورپی کمیشن، یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس اور ای یو کی رکن ریاستوں سے مطالبہ کرے کہ وہ اوپر مذکور اقدامات کریں اور ای یو کے اعلیٰ نمائندگان اور کمیشن سے درخواست کرے کہ وہ آئندہ کے اقدامات کے بارے میں پارلیمان کو مطلع کریں۔
اسرائیل اور او پی ٹی میں کاروباری حلقوں سے مطالبہ ہے کہ وہ:
- جائزہ لیں کہ کیا اؙن کی مصنوعات اور خدمات کہیں نسلی امتیاز اور جبری کے جرائم کے ارتکاب میں مددگار تو ثابت نہیں ہو رہیں، جیسے کہ فلسطینی گھروں کی غیرقانونی مسماری میں استعمال ہونے والے آلات۔ اور کاروبار و انسانی حقوق پر اقوامؚ متحدہ کے رہنماء اصولوں کی روشنی میں ایسی مصنوعات اور خدمات کی فراہمی روک دیں چاہیے جن کا ایسے مقاصد کے لیے استعمال ہونے کا خدشہ ہو۔۔
کاروباری حلقوں کو کم از کم یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ ایسی سرگرمیاں ختم کر دیں جو نسلی امتیاز اور جبر کے جرائم کے ارتکاب میں معاون ہیں۔
[1] مثال کے طور پر ملاحظہ کریں''1976 کے انٹرویو میں، رابن نے آبادکاری کے حامیوں کو 'سرطان' سے مشابہ قرار دیا، 'نسلی امتیاز' کی تنبیہ کی''، ٹائمز آف اسرائیل، 25 ستمبر 2015، https://www.timesofisrael.com/in-1976-interview-rabin-likens-settlements-to-cancer-warns-of-apartheid/ ( 4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ ''ایہود باراک نے نسلی امتیاز کی باڑ توڑ دی،''، دی اکانومسٹ، فروری 15 2010، https://www.economist.com/democracy-in-america/2010/02/15/ehud-barak-breaks-the-apartheid-barrier ( 4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ روری میکارتھی، ''اگر ریاستی حل ناکام ہوتا ہے تو اسرائیل کو نسلی امتیاز کی طرح کی جدوجہد کا خطرہ درپیش ہو سکتا ہے، اولمرٹ نے کہا''، دی گارڈين، نوبمر 30 2007، https://www.theguardian.com/world/2007/nov/30/srael ( 4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ زیہاوا گیلن (@zehavagalon) 18 اپریل 2021، ٹویٹر، https://twitter.com/zehavagalon/status/1251391524157435904?lang=en، (13 جولائی 2020 کو رسائی ہوئی؛ عباس نے یواین کو کہا کہ وہ اسرائیل کے 'نسلی امتیاز' کے خاتمے کی ذمہ دار ہے۔'' ٹائمز آف اسرائیل، 20 ستمبر 2017، https://www.timesofisrael.com/abbas-tells-un-its-responsible-for-ending-israeli-apartheid/ (5 جولائی 2020 کو رسائی ہوئی)؛ جمی کارٹر، ''اسرائیل، فلسطین، امن اور نسلی امتیاز،'' دی گارڈین، 12 دسمبر 2006، https://www.theguardian.com/commentisfree/2006/dec/12/israel.politicsphilosophyandsociety (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی؛ پیٹر بیمونٹ، ''امن مذاکرت ناکام ہوئے تو اسرائیل نسلی امتیاز والی ریاست بن سکتک ہے، جان کیری نے کہا، دی گارڈين، 29 اپریل، 2014، https://www.theguardian.com/world/2014/apr/28/israel-apartheid-state-peace-talks-john-kerry (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ ''بنیامین نتن یاہو: جدید عوامی مقبولیت کی حکایت،'' دی اکانومٹ، 30 مارچ، 2019، https://www.economist.com/leaders/2019/03/30/binyamin-netanyahu-a-parable-of-modern-populism?frsc=dg%7Ce (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ ادارتی بورڈ، ''محترم نتن یاہو کا اگلا امتحان، ''نیویارک ٹائمز، 10 اپریل، 2019، https://www.nytimes.com/2019/04/10/opinion/editorials/israel-election-netanyahu-trump.html?smid=nytcore-ios-share (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ احشان تھرور، ''نتن یاہو کو جیت کا راستہ نظر آرہا ہے، ناقدین کو نسلی امتیاز کا،'' واشنگٹن پوسٹ، 8 اپریل، 2019، https://www.washingtonpost.com/world/2019/04/08/netanyahu-sees-path-victory-critics-see-apartheid/?noredirect=on&utm_term=.5de80e23a864 (4 جون 2020 کو رسائی ہوئیں)؛ شہری انتظامیہ نے آبادکاری یونٹوں کے ساتھ پیش قدمی کی ہے،''اب امن کی پریس ریلیز، 6 جنوری، 2020، https://peacenow.org.il/en/civil-administration-advances-1936-settlement-units (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ ''اسرائیلی- فلسطینی کشیدگی کے تصفیے کے امریکی منصوبے کے بارے میں شدید فکر،'' دی گارڈین۔ 7 فروری، 2020، , https://www.theguardian.com/world/2020/feb/27/grave-concern-about-us-plan-to-resolve-israel-palestine-conflict (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ ٹرمپ کے منصوبے نے مغربی غزہ میں نسلی امتیاز کے نظام کو معمول کا درجہ دیا ہے، الحاق اور اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کی جبری بےدخلی کا تقاضا کیا ہے،'' ادلہ پریس ریلیز، 30 جنوری، 2020، https://www.adalah.org/en/content/view/9900 (4 جون، 2020 کو رسائی ہوئی)؛ ڈینیل سوکاچ، '' الحاق پر مضبوط جمہوری ردعمل،'' نیا اسرائیلی فنڈ بلاگ، 30 جنوری، 2020، https://www.nif.org/blog/we-are-the-democratic-pushback-to-annexation/ (4 جون، 2020 کو رسائی ہوئی)؛ گادی تاؤب، ''نتائج آ گئے، امن کھو گیا،'' نیویارک ٹائمز، 20 جنوری، 2003، https://www.nytimes.com/2003/01/29/opinion/the-results-are-in-and-peace-lost.html (4جون 2020 کو رسائی ہوئی)؛ تھامس لی فریڈمین، ''کیمپس منافقت،'' نیویارک ٹائمز، 16 اکتوبر، 2002)، https://www.nytimes.com/2002/10/16/opinion/campus-hypocrisy.html (4 جون، 2020 کو رسائی ہوئی)۔
[2] مثال کے طور پر ملاحظہ کریں، نتھن تھرال، ''الگ نظاموں کا مغالطہ،'' لندن ریویو آف بکس، والیم 43، نمبر 2، جنوری 21، 20121۔ https://lrb.co.uk/the-paper/v43/n02/nathan-thrall/the-separate-regimes-delusion ( 19 جنوری 2021 کو رسائی ہوئی)؛ دریائے اردن سے بحیرہ روم تک یہودی بالادستی کا نظام: یہ نسلی امتیاز ہے،'' بتسلیم، 12 جنوری 2021، https://www.btselem.org/publications/fulltext/202101_this_is_apartheid ( 19 جنوری 2021 کو رسائی ہوئی)
[3] جنہوں نے ایسا کیا ان میں شامل ہیں، ای ایس سی ڈبلیو اے نے فلسطینیی عوام کے ساتھ اسرائیلی سلوک اور نسلی امتیاز کے سوال پر رپورٹ جاری کی،'' یواین معاشی و سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا (ای ایس سی ڈبلیو اے) پریس ریلیز، 15 مارچ 2017، https://www.unescwa.org/news/escwa-launches-report-israeli-practices-towards-palestinian-people-and-question-apartheid (4 جون 2020 کو رسائی ہوئی) (رپورٹ اب آن لائن دستیاب نہیں ہے؛ نقل ایچ آر ڈبلیو کے پاس ہے)؛ فلسطین، علاقائی و عالمی گروہوں نے نسلی امتیاز کے خاتمے کی یواین کمیٹی کو اسرائیلی نسلی امتیاز پر رپورٹ جمع کروائی ہے،'' الحق پریس ریلیز، 12 نومبر، 2019، https://www.alhaq.org/advocacy/16183.html (19 جنوری، 2021)؛ ییش دین، ''مغربی کنارے پر قبضہ اور نسلی امتیاز کا جرم: قانونی رائے، ''9 جولائی، 2020، https://www.yesh-din.org/en/the-occupation-of-the-west-bank-and-the-crime-of-apartheid-legal-opinion/ (12 اگست، 2020 کو رسائی ہوئی)
[4] واپسی کے حق پر ہیومن رائٹس واچ کی پالیسی
[5] ہیومن رائٹس واچ، شہریتی حقوق کے بغیر پیدا ہونے والے