(نیو یارک) – ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنی عالمی رپورٹ 2020 میں کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے 2019 کے دوران ذرائع ابلاغ، حزبؚ اختلاف، اور غیرسرکاری تنظیموں کے خلاف کاروائیاں تیز کی ہیں۔
پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر حکام کے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے جن کا خیال تھا کہ ذرائع ابلاغ حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ بعض واقعات میں، انضباطی ایجنسیوں نے ناقدانہ پروگرام نشر کرنے والے چینلوں کی نشریات بند کرنے کی ہدایت کی۔ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل جیو کو حکومت پر ناقدانہ تبصروں کی پاداش میں نشریات بند کرنے پر مجبور کیا گیا یا اُس تک اُس کے سامعین کی رسائی محدود کی گئی۔ 09 جولائی کو، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے حزبؚ اختلاف کے رہنماؤں کی تقریریں نشر کرنے پر تین ٹیلی ویژن چینلوں: کیپیٹل ٹی وی، 24 نیوز ایچ ڈی، اور اَب تک نیوز نیٹ ورک کی نشریات بند کر دیں۔ یکم جولائی کو جیو ٹی وی پر سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو براہ راست شروع ہی ہوا تھا کہ پیمرا نے اُس کی نشریات روک دیں ۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر براڈ ایڈمز نے کہا کہ '' پاکستانی حکومت جمہوری حکومت پر عائد بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ‒‒ آزادانہ اظہار اور ناقد آوازوں کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی میں ناکام ہے۔ '' وزیرؚاعظم عمران خان کی حکومت کو انسانی حقوق کے دیرینہ مسائل سے نبٹنا چاہیے ناکہ وہ اُن پر توجہ دلانے والے لوگوں کی زبان بندی کرے۔''
ہیومن رائٹس واچ نے 652 صفحاات پر مبنی عالمی رپورٹ 2020 جو ایچ ار ڈبلیو کی سالانہ عالمی رپورٹ کا تیسواں شمارہ ہے، میں لگ بھگ 100 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنے تعارفی مضمون میں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ روتھ نے کہا ہے کہ چینی حکومت جو اقتدار میں رہنے کے لیے جبر کے ذرائع پر انحصار کرتے ہے، کئی عشروں سے انسانی حقوق کے عالمی نظام انتہائی سخت ضَربیں لگا رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے اقدامات دنیا بھر میں عوامیت پسند جابر حکمرانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں اور ان سے مدد بھی لے رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کو ایسی کئی مُستند اطلاعات ملی ہیں کہ سرکاری اہلکاروں نے کئی اداروں اوراُن کے عملے کو دھمکایا، ہراساں کیا اور اُن کی کڑی نگرانی کی۔ سرکار نے پاکستان میں عالمی انسانیت دوست اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندراج اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے آئی این جی اوز ضابطہ (عالمی غیرسرکاری تنظیمیں) استعمال کیا۔
حکومت نے سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حمایتیوں کے خلاف بھی کاروائیاں کیں۔ وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ سابق سربراہ ریاست اور وزراء سمیت حزبؚ اختلاف کے کئی رہنماؤں کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کرنے کے بعد اُنہیں باضابطہ قانونی کاروائی اور منصفانہ سماعت کے حق سے محروم رکھا گیا۔
پاکستانی حکومت 2019 میں مذہب کی تضحیک کےقانون میں ترمیم یا تنسیخ کرنے میں ناکام رہی۔ یہ قانون مذہبی اقلیتوں پر تشدد، نیز من مانی گرفتاریوں اور مقدمہ سازی کا بہانہ فراہم کرتا ہے۔
اگرچہ عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے مختلف واقعات سے اؚس اَمر کی نشاندہی ہوئی ہے کہ متاثرین کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ حکام بعض بنیادی اصلاحات متعارف کروانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ صوبائی کابینہ سندھ نے اگست میں ایک نیا قانون منظور کیا جس کے باعث زرعی مزدور عورتوں کو تحریری معاہدے، کم از کم معاوضے، بہبود کے فوائد، اور معاوضے میں صنفی مساوات کا حق ملا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرعی مزدور عورتوں کا یونین سازی کا حق تسلیم کیا گیا۔
پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں الزام کےبغیر حراست اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ دار ہیں۔ پاکستان ایذا رسانی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کرنے میں ناکام رہا ہے حالانکہ ایذا رسانی کے خلاف میثاق کے تحت پاکستان پر یہ فریضہ عائد ہے۔
'' پاکستانی حکام کو تسلیم کرنا چاہیے کہ مختلف آراء کا ہونا کمزوری نہیں بلکہ طاقت کا مظہرہوتا ہے''، ایڈمز نے کہا۔ '' اختلافؚ رائے کا گلا گھونٹنے کے بجائے حکومت کو اپنی سیکیورٹی فورسز کو جوابدہ ٹھہرانے، امتیازی قوانین ختم کرنے، اور قانون کی حکمرانی کا مخلصانہ عزم ظاہر کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔''