(نیویارک) – ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے حکام لاہور شہر کے قریب انفراسٹرکچر کے ایک بڑے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے لاکھوں کسانوں کو زبردستی بے دخل کر رہے ہیں، ۔ حکام کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنائیں اور نوآبادیاتی دور کے اُن قوانین میں اصلاحات کریں جو حکومت کو نجی اور عوامی استعمال کے لیے زمین کے حصول کے وسیع اختیارات سے نوازتے ہیں۔
راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ (آر یو ڈی پی) کا آغاز اگست 2020 میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کیا تھا، جن نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ لاہور کے بہت سے مسائل جیسے کہ آلودگی، نکاسی آب، پانی، رہائش اور روزگار کو حل کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ شہر کی "کھوئی ہوئی شان" کو بحال کرے گا۔ 5 کھرب پاکستانی روپوں (7 ارب امریکی ڈالر) کا سرکاری منصوبہ، جو صوبہ پنجاب میں دریائے راوی کے ساتھ 100,000 ایکڑ سے زیادہ رقبےپر محیط ہے، پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ مجوزہ منصوبوں کے تحت ایک کروڑ، بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل "دنیا کا سب سے بڑا ریور فرنٹ سٹی" تعمیر ہو گا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا، "پنجاب کے صوبائی حکام نے علاقے کے کسانوں کو اُن کے گھروں اور معاش سے محروم کرنے کے لیے ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔" "حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سرکاری منصوبوں سے بے دخلی اور آمدنی میں نقصانات کے کم سے کم امکانات پیدا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نقصان اور سیلاب کے خطرات کو بھی کم کیا جائے۔"
دریائے راوی کے منصوبے پر پیش رفت کے لیے حکومت نے مطلوبہ اراضی کے حصول کے لیے نجی ڈویلپرز کے ایماء پر کارروائی کی ہے۔ اس میں سے 85 فیصد زرعی اراضی ہے جس پر تقریباً 10 لاکھ کسانوں، مزدوروں اور کاروباری مالکان کا قبضہ ہے۔ متاثرہ کسان جنہوں نے زمین پر سرکاری قبضے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، انہیں سرکاری راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (رُوڈا)، صوبائی حکام، اور پراجیکٹ ڈویلپرز کی طرف سے دھونس دھمکیوں اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حالانکہ یہ قانونی چیلنجز عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ پر کام کرنے والے گروپوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ دریائے راوی کے بہاؤ کے حوالے سے منصوبے کی تجویز کردہ تبدیلیاں سیلاب کے خطرات کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ نے 2022 کے وسط میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا۔
1 فروری اور 1 مارچ 2023 کے دوران، ہیومن رائٹس واچ نے 14 کسانوں سے بات کی جنہوں نے کہا کہ انُہیں اگست 2020 سے لاہور میں بے دخل کیا گیا ہے یا انہیں بے دخل کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی 8 وکلاء، ماحولیاتی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں سے بھی گفتگو کی گئی۔
2020 سے، حکام نے 100 سے زیادہ کسانوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے ہیں۔ ان کے خلاف مزاحمت کرنے یا زمین کا قبضہ نہ چھوڑنے کا الزام ہے۔ کسانوں کے بیانات اور بعض تصاویر اور ویڈیو سے یہ شواہد ملے ہیں کہ کسانوں کو بے دخل کرنے کے لیے انہیں دھمکیاں دی گئیں، ہراساں کیا گیا اور طاقت کا استعمال کیا گیا۔ تاہم، متاثر ہونے والے یا زبردستی بے دخل کیے گئے لوگوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے۔ کسانوں کی نمائندگی کرنے والے گروپس بھی صحیح تعداد کا تعین نہیں کر سکے۔
جنوری 2022 میں عدالتِ عالیہ لاہور نے دریائے راوی کے منصوبے کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ منصوبے سے زمین کے زبردستی حصول، بے دخل ہونے والوں کو معاوضہ دینے کے عمل اور منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کی جائزے سے متعلق ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اگلے مہینے عدالتِ عظمیٰ نے لاہور عدالتِ عالیہ کے فیصلے کو جزوی طور پر کالعدم قرار دے دیا اور حکومت کو صرف اُس زمین پر ترقیاتی کام جاری رکھنے کی اجازت دی جو اُس نے پہلے سے حاصل کر رکھی تھی اور جس کے لیے اُس نے معاوضہ ادا کیا تھا۔
کسانوں اور کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے باوجود ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے زمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نومبر 2022 میں انہوں نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے اطلاق کے لیے عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کی۔ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کسانوں کو زبردستی بے دخل کرنے کی تردید کی ہے۔
اکتوبر 2022 میں، ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کم از کم نو کسانوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اُنہوں نے وہ زمینیں اور مکانات حکومت کے حوالے سے انکار کیا اور مزاحمت کی تھی جو حکومت نے قانونی طریقے سے حاصل کیے تھے۔ کسانوں نے اس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہوں نے زمین دینےکے لیے رضامندی ظاہر نہیں کی تھی اور حکومت سے انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملا تھا۔
ایک کسان نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ اس کا خاندان تین نسلوں سے اِس زمین پر رہ رہا ہے اور حکومت نہ صرف انہیں زبردستی بے دخل کر رہی ہے بلکہ مناسب معاوضہ دینے سے بھی انکار کر رہی ہے۔ ایک 60 سالہ کسان جن کی زمین پر قبضہ کر لیا گیا تھا، نے کہا، "حکومت کہتی ہے کہ وہ ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں ایک نیا شہر بنانے کے لیے ہمارے پہلے والے شہر اور زندگیوں کو تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"
دریائے راوی کے علاقے میں، جیسا کہ پاکستان کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں ہوتا ہے، کھیتی باڑی خاندانوں اور برادریوں کے لیے معاشی بقا کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کسان خاندان اپنی روزی روٹی سے محروم ہو جاتے ہیں تو اس کے نتائج اکثر دور رس ہوتے ہیں۔ زمین کاشت کرنے اور فصلیں فروخت کرنے کی صلاحیت کے بغیر، کسانوں کو عام طور پر ملازمتوں پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے لیے ان کے پاس مہارت کی کمی ہوتی ہے اور وہ بہت کم آمدنی پیدا کرتے ہیں، اور یہ چیز بالآخر انہیں غربت کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک کسان نے کہا: "حکومت ایسی زرخیز زمین پر قبضہ کر رہی ہے جو نہ صرف کسانوں کے لیے بلکہ پورے لاہور شہر کے لیے خوراک مہیا کرتی ہے اور اس کی جگہ کنکریٹ کا جنگل لگا رہی ہے جس سے صرف سرکاری افسران، پراپرٹی ڈویلپرز اور امیر لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔"
ہیومن رائٹس واچ نے ایسے کئی کسانوں کے انٹرویوز کیے جن کی زمین اور روزی روٹی چھین لی گئی ہے، اور اب وہ بے یارومدد گار اور غیر محفوظ ہیں۔ جب پاکستان نئے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کا سوچتا ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت بھی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے زمین اور معاش کے حقوق کا تحفظ کرے۔
گوسمین نے کہا، "پاکستانی حکام کو اراضی کے حصول سے متعلق نوآبادیاتی دور کے قوانین میں فورج طور پر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ قوانین منصفانہ، شفاف اور پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے عین مطابق ہوں"۔ "حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین کے نقصان کی تلافی کرے اور بے گھر ہونے والوں کی دوبارہ آبادکاری اور بحالیِ نو کا بندوبست کرے۔"
اضافی معلومات اور تفصیلات کے لیے ، براہ مہربانی درج ذیل ملاحظہ کریں
اراضی کے قوانین، حقوق سے متعلق عالمی معیارات، اور ماحولیاتی مسائل
حصول اراضی قانون 1894 اور جبری بے دخلیاں
برطانوی نوآبادیاتی حکومت نے "عوامی مقاصد" کی خاطر زمین حاصل کرنے کے لیے حصول اراضی قانون 1894 نافذ کیا۔ نوآبادیاتی دور کے قانون کے تحت پاکستانی حکام کو نہ صرف سرکاری منصوبوں کے لیے بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور نجی کمپنیوں سمیت دیگر اداروں کے لیے بھی زمین حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ قانون حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا تقریباً مکمل اختیار دیتا ہے کہ اس دائرہ کار میں کیا آتا ہے اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو بے گھر کرنے کا اختیار بھی حکومت کو حاصل ہے۔
ایکٹ کے تحت، ایک بار جب حکومت یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ "عوامی مقاصد" کے لیے زمین کی ضرورت ہےتو زمین کے مالک کے پاس زمین کی ملکیت منتقل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کسان صرف مناسب معاوضے کے لیے تگ و دو کر سکتے ہیں۔ قانون بے دخل ہونے والوں کے لیے روزی روٹی کے نقصان کی تلافی نہیں کرتا، اور نہ ہی حکومت سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ بے گھر ہونے والوں کو دوبارہ آباد کرے اور ان کی بحالیِ نو کرے۔ ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ اکثر پیش کردہ نقد معاوضہ ناکافی ہوتا ہے اور منڈی کے نرخ کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ سے بات کرنے والے زیادہ تر کسانوں نے جو بے دخلی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں کہا کہ انہیں نامناسب معاوضہ ملا یا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ اس نے زمین کے 70 فیصد مالکان کو ادائیگی کر دی ہے اور جن زمینداروں کو تحفظات ہیں انہیں اپنا دعویٰ کرنے کا موقع ملے گا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے گروپوں کے حصول اراضی قانون کے تحت کیے گئے ترقیاتی منصوبوں میں حکام کی جانب سے دھمکیوں، ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال اور ڈرانے دھمکانے کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ دریائے راوی کے منصوبے میں، عدالتوں نے جبری بے دخلی کے انفرادی دعووں پر فیصلہ نہیں دیا اور اس کے بجائے قواعد و ضوابط کی پاسداری کرنے کے اصول جاری کیے ہیں۔
ناکافی معاوضہ
پاکستان کا آئین جائیداد اور زمین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 23 کہتا ہے کہ "ہر شہری کو آئین اور عوامی مفاد میں قانون کی طرف سے عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع رہتے ہوئےپاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد حاصل کرنے، رکھنے اور استعمال کا حق حاصل ہوگا۔" آئین یہ بھی کہتا ہے کہ "ماسوائے اس کے کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہو کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد سے جبری طور پر محروم نہیں کیا جائے گا۔" اس میں کہا گیا ہے کہ "کوئی جائیداد لازمی طور پر حاصل نہیں کی جائے گی نہ ہی اس پر قبضہ کیا جائے گا ماسوائے کسی عوامی مقصد کے لیے اور قانون کی اتھارٹی کے ذریعے، جو اس کا معاوضہ فراہم کرے گی، اور یا تو معاوضے کی رقم طے کرے گی یا اصول اور طریقہ کار وضع کرے گی جس کے تحت معاوضے کا تعین کیااور معاوضہ ادا کیا جائے گا۔"
ان آئینی تحفظات کے باوجود، حصولِ اراضی قانون منڈی میں رائج معاوضے کے تعین کے لیے کوئی معیار فراہم نہیں کرتا ہے اور ادا کیے گئے معاوضے کے مناسب ہونے کے حوالے سے سنگین خدشات پائے جاتے ہیں۔
عدالتیں، جو انتظامی کارروائیوں کے طریقہ کار اور اصولوں کا باقاعدگی سے جائزہ لیتی ہیں، روایتی طور پر ریاستی اداروں کی طرف سے بیان کیے گئے عوامی مقصد کے جواز کی موزونیت اور قانونی حیثیت کا جائزہ لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہی ہیں۔
مارچ 2022 میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے کہا:
اراضی کے حصول کا قانون اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک غاصب قانونہے اور کسی فرد کو اس کی جائیداد اور اس سے منسلک تمام حقوق سے بڑي آسانی سے محروم کر دیتا ہے۔ لہذا، عوامی مقصد کے لیے حصول سے متعلق نوآبادیاتی مقصد اور قانون کی تشریح آج بھی اس طرح سے جاری و ساری ہے کہ اس کے بدلے فرد کو جائیداد رکھنے کے حق سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں، ایسا لگتا ہے کہ اراضی حاصل کرنے والے محکمے کی جانب سے معاوضے کے تعین کے لیے منصفانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
37 سالہ شبیر جو کہ ایک کسان ہیں اور چند ایکڑ اراضی پر کاشتکاری کرتے ہیں جو کہ رُوڈا کے حصول کے لیے مختص کی گئی ہے، نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا:
ہمیں ہمارے گھروں سے، ہماری زمینوں سے بے دخل کرنے کے علاوہ، ہمیں ہماری زمین کا حقیقی معاوضہ بھی نہیں دیا جا رہا۔ حکومت معاوضے کی رقم مقرر کرنے کے لیے زمین کی پرانی قیمتوں کا استعمال کر رہی ہے۔ میرے کھیت کی قدر نہ صرف زمین ہے بلکہ اس پر اُگنے والی فصلوں کی قیمت بھی ہے جو میرے خاندان کی آمدنی کا ذریعہ ہے
رحیم، ایک 58 سالہ کسان جس کے پاس دریائے راوی کے کنارے زمین ہے، جس پر ان کا خاندان تین نسلوں سے رہتا ہے اور کاشت کرتا ہے، نے کہا:
معاوضہ ایک مذاق ہے۔ حکومت ہماری زندگیوں اور معاش کی جو قیمت لگاتی ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ منڈی کے نرح کا حساب لگانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ وہ ہماری زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں جو ایکڑوں میں ہے اور اونچی عمارتیں بنائیں گے جنہیں وہ فی گز کے نرخ/قیمت پر فروخت کریں گے۔
منصوبے کی وجہ سے بے دخلی کا سامنا کرنے والے متعدد کسانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل فہد ملک نے کہا کہ زمین کے حصول کے لیے قانون میں موجود دفعات کی "آئینی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے":
مجوزہ "عوامی مقصد" جس کے لئے زمین حاصل کی جا رہی ہے، کی موزونیت یا اثرات کا تعین کرنے کے معاملے میں زمین کے مالکان کے اثررسوخ یا مؤقف کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے اور حقیقت میں وہ صرف معاوضے کی رقم پر سوال اٹھا سکتے ہیں… بین الاقوامی ذمہ داریوں اور آئینی تحفظات کے پیشِ نظر، عوامی مقصد کا مناسب جواز پیش کیے بغیر ریاست ضمانت شدہ بنیادی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے زبردستی زمین حاصل نہیں کر سکتی۔
ملک کا دعویٰ ہے کہ حصولِ اراضی قانون "ان میں سے کسی بھی اصول پر پورا نہیں اترتا اور اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔"
انسانی حقوق کے عالمی معیارات اور جبری بے دخلیاں
حصولِ اراضی قانون کی دفعات جبری بے دخلی کی اجازت دیتی ہیں اور تلافی کے لیے طریقہ کار کی عدم موجودگی عالمی قانون کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سابق کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق "زبردستی بے دخلی" سے مراد "افراد، خاندانوں اور/یا برادریوں کو اُن کی مرضی کے خلاف گھروں اور/یا زمینوں سے مستقل یا عارضی طور پر ہٹایا جانا ہے جن پر وہ قابض ہیں، قانونی یا دیگر قسم کے تحفظ کی فراہمی اور اس تک رسائی کےبغیر۔ کمیشن نے تصدیق کی کہ جبری بے دخلی "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی" ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کی کمیٹی، جو اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے عالمی میثاق جس کا پاکستان فریق ہے، کی مستند تشریحات فراہم کرتی ہے، اپنے عمومی تبصرہ نمبر 26 میں کہتی ہے کہ "جبری بے دخلیاں بظاہر میثاق کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کو مناسب مدت کے لیے تحفظ فراہم کرے جو جبری بے دخلی کے خلاف قانونی تحفظ کی ضمانت دیتا ہو۔ میثاق حکومتوں پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ وہ زمین استعمال کرنے والوں کے جائز مدتی حقوق میں مداخلت نہ کریں، خاص طور پر اُس زمین سے مکینوں کو بے دخل نہ کیا جائے جس پر اُن کی اپنی روزی روٹی منحصر ہے۔
حکام صرف ایسے قانون کے تحت بے دخلی کر سکتے ہیں جو انسانی حقوق کے معیارات پر پورا اترتے ہوں جو حکومت کے جائز مقصد اور بے دخل کیے جانے والوں پر پڑنے والے نتائج کے درمیان معقولیت اور تناسب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ اس جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بے دخلی کم سے کم مانع اقدام ہونا چاہیے، اور عوامی فلاح و بہبود کے فروغ کا متاثرہ افراد پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونے چاہیے
مناسب رہائش کے حق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے نے جبری بے دخلییوں کو "بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق بشمول مناسب رہائش، خوراک، پانی، صحت، تعلیم، کام، افراد کی حفاظت کے انسانی حقوق، ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک سے آزادی، اور نقل و حرکت کی آزادی کے انسانی حقوق۔ کی سنگین خلاف ورزیاں قرار دیا ہے۔
ترقی پر مبنی بے دخلییوں اور نقل مکانی سے متعلق اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور رہنما خطوط کے تحت، معاوضہ فراہم کرنے کے علاوہ، حکام کو اِس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بے دخل افراد یا گروہوں کو خوراک، صاف پانی وصفائی، بنیادی رہائش، ضروری طبی سہولیات، اور بچوں کی تعلیم تک "محفوظ اور باحفاظت" رسائی حاصل ہو۔
ماحولیاتی مسائل
غیر سرکاری ادارے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے لاہور کنزرویشن سوسائٹی کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے دریائے راوی کے منصوبے کو موسمیاتی، ماحولیاتی اور مالی طور پر ناقابلِ عمل قرار دیا ہے۔ نتائج یہ تھے کہ دریا میں مجوزہ تبدیلیاں ماحولیاتی اعتبار سے ناپائیدار ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دریا پر بیراجوں اور دیگر ڈیموں کی تعمیر اور کھیت کی زمین کو پختہ علاقوں میں تبدیل کرنے سے پانی کی سطح اوپر کی سطح میں اضافہ ہو سکتاہے اور سیلاب کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ منصوبہ ناپائیدار ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے سے "سرسبز علاقے" میں اضافہ ہوگا اور اس میں "ماحولیاتی تالاب، دلدلی زمینیں، [اور] جنگلی حیات کے محفوظ مقامات" شامل ہیں۔ اتھارٹی نے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (ای آئی اے) لیا تھا، لیکن حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے ای آئی اے کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں کیونکہ یہ ایک غیر رجسٹرڈ ماحولیاتی کنسلٹنٹ کے ذریعہ کیا گیا تھا۔
پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے غیر معیاری ماحولیاتی جائزوں کی ایک تاریخ ہے، اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی نے 2017 میں ای آئی اے کنسلٹنٹس سے رجسٹر ہونے کا تقاضا کیا۔ جون 2021 کے ایک اخباری مضمون کے مطابق، ممتاز ماہرینِ ماحولیات، ماہرینِ سماجیات، اور وکلاء نے منصوبے پر تنقید کی، یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہ جائزے کے باوجود ماحولیاتی وسائل پر اس منصوبے کے "طویل مدتی اور ناقابلِ تلافی" اثرات مرتب ہوں گے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ شہری ترقی کی خاطر زرعی اراضی کے حصول کے لیے حکومت کا بلا روک ٹوٹ اختیار پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے سنگین مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی غذائی تحفظ کے مسائل کا سامنا ہے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مزید بڑھ گئے ہیں۔ لاہور کے بڑے علاقے میں، زراعت کے لیے استعمال ہونے والی زمین کا فیصد 1972 میں 54 فیصد سے کم ہو کر 2009 میں 35 فیصد رہ گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن 2009 کے بعد تیزی سے شہری آبادی میں ترقی کے پیشِ نظر زرعی زمین میں مزید کمی کا امکان ہے۔
رُوڈا کے لیے زرعی اراضی کے حصول سے متعلق ایک فیصلے میں، عدالتِ عالیہ لاہور نے کہا:
صرف ناگزیر حالات میں ہی زمین کا زیر کاشت ٹکڑا حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا کرنا لاز م ہو تو پھر قانون کے ذریعے مختص کیے جانے والے ایک مناسب علاقے، اور زير ِکاشت لائے جانے والے علاقے کے تعین کے لیے قانونی طریقہ کار موجود ہونا چاہیے تاکہ غذائی تحفظ کا کا توازن خراب نہ ہو..
پاکستان عالمی فوڈ سیکیورٹی انڈیکس میں 113 ممالک میں 80 ویں نمبر پر ہے اور فوڈ سیفٹی اسکور 43.5 ہے جو 60.4 کے اوسط اسکور سے کم ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے غذائی تحفظ کے لیے زرعی اراضی اور زیرِ کاشت زمین کے نقصان کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
طاہر، ایک کسان جو سبزیاں اگاتا ہے اور اب اسے رُوڈا منصوبے کی وجہ سے ممکنہ بے دخلی کا سامنا ہے، نے نہ صرف علاقے کے کسانوں کے لیے بلکہ لاہور کے آس پاس کے لوگوں کے لیے اپنی تشویش کا اظہار کیا:
یہ علاقہ لاہور کی خوراک کی ٹوکری ہے اور پورے لاہور کے علاقے کے لیے سبزیاں اور دیگر فصلیں مہیا کرتا ہے۔ اب ہم سب کو بے دخل کر دیا جائے گا اور لاہور کے آس پاس کوئی اور جگہ نہیں ہے جہاں ہم دوبارہ کاشتکاری شروع کر سکیں، کیونکہ وہاں مناسب مقدار میں زرخیز زمین دستیاب نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ ہمیں دیا جانے والا معاوضہ بہت کم ہے۔ اس کے نتیجے میں، صرف ہم ہی نہیں بلکہ لاہور کے زیادہ تر لوگ خوراک کے لیے مشکل صورت ِحال سے دوچار ہوں گے کیونکہ اُنہیں پھل، سبزیاں اور فصلیں دور دراز مقامات سے لانی ہوں گی اور اس کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔