- پاکستانی حکام سرکاری ونجی ترقیاتی منصوبوں کی راہ ہموار کرنے کی خاطر کم آمدنی والے لوگوں، دُکانداروں اور ریڑی بانوں کو بے دخل کرنے کے لیے اکثر نوآبادیاتی دور کے قوانین استعال کرتے ہیں۔
- بےدخلیاں معاشی و سماجی لحاظ سے سب سے زيادہ پسے ہوئے طبقوں کو سب سے زيادہ متاثر کرتی ہیں جنہیں ازسر نِو آباد کرنے یا ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں۔
- پاکستانی حکومت اپنے ملکی قوانین تبدیل کرے اور یقینی بنائے کہ بے دخلی کی وجہ سے کوئی فرد بےگھر نہ رہے، اور مناسب معاوضے اور نوآبادکاری کے انتظامات بھی کرے۔
(نیو یارک، 28 مئی، 2024)۔ ہیومن رائٹس واچ نے آج جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام سرکاری ونجی ترقیاتی منصوبوں کی راہ ہموار کرنے کی خاطر کم آمدنی والے لوگوں، دُکانداروں اور ریڑی بانوں کو بے دخل کرنے کے لیے اکثر نوآبادیاتی دور کے قوانین استعال کرتے ہیں۔
48 صفحات پر مشتمل رپورٹ، ''میں صرف اپنی زندگی بچا کر نکل سکی:، پاکستان میں ظالمانہ جبری بے دخلیاں''، میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ظالمانہ جبری بے دخلیوں کا ذکر ہے، جن سے پاکستان میں سب سے زيادہ متاثر وہ طبقے ہوتے ہيں جو معاشی و سماجی طور پر سب سے زيادہ پسے ہوئے ہیں۔ حکام نے ہزاروں لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے اُنہیں کسی قسم کی مشاورت، نوٹس، معاوضے، نوآبادکاری کی مدد، یا تلافی کے ذرائع فراہم کیے بغیر بے دخل کیا ہے۔
ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کے سینئیر مشیر سروپ اعجاز نے کہا کہ ''پاکستانی حکومت کو اپنے نوآبادیاتی دور کے قوانین میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں منصفانہ و شفاف بنایا جا سکے اور پاکستان کی عالمی ذمہ داریوں کی مطابقت میں لایا جا سکے۔ حکام یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص بے دخلی کے نتیجے میں بے گھر نہ رہے، بے دخل ہونے والوں کو اُن کی اراضی کا معاوضہ ملے، اور اُن کی نو آبادکاری کے انتظامات کیے جائیں۔''
ہیومن رائٹس واچ نے لاہور، اسلام آباد، اور کراچی میں جبری بے دخلیوں کا نشانہ بننے والے 36 لوگوں، نیز متاثرین کے حقوق کی وکالت کرنے والے وکلاء، اور شہری منصوبہ بندی کرنے والے ماہرین کے انٹرویوز کیے، عدالتی فیصلوں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں زمینوں کے بندوبست کے نظام سے متعلق قوانین کا جائزہ لیا ہے۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی بے دخلیوں کو قلمبند کیے گئے زيادہ تر واقعات میں، حکام مناسب مشاورت، نوٹس اور تلافی کا کوئی ذریعہ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ بے دخلی کے کئی واقعات میں، پولیس نے کرایہ داروں کو بے دخل کرنے کے لیے غیر ضروری یا حد سے زیادہ طاقت استعمال کی جس میں مار پیٹ، من مانی گرفتاریاں اور ذاتی املاک کی تباہی شامل تھی۔ ترقیاتی منصوبوں کو عوام کے لیے انتہائی مفید قرار دینے کی سرکاری تشہیر سے متاثرین کو پہنچنے والےنقصانات میں کوئی کمی نہیں آئی جن سے بچا جا سکتا تھانہ ہی اُن نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے سرکار کے عالمی قانونی فرائض کی پاسداری ہوئی ہے۔
بے دخل ہونے والے کئی لوگ اپنے گھروں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر اپنے ذرائع آمدن اور اسکول اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی سرکاری سہولتوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات ایسے لوگوں اور گھرانوں پر بوجھ میں شدید اضافہ کر کے معاشی ناہمواریاں بڑھاتے ہیں جن کی آمدنی کم ہوتی ہے اور جو اکثر لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
پاکستان کے حصولِ اراضی قانون 1894 نے ایک صدی سے زائد عرصہ بعد ملک میں سرکاری اراضی کے حصول کا طریقہ کار فراہم کیا۔ قانون پاکستانی حکام کو مبہم طریقے سے تعریف کردہ ''مفادِ عامہ''، کے لیے اراضی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اِس تعریف کی رُو سے سرکاری ونجی شراکت اور یہاں تک کہ منافع بخش کمپنیوں کے نجی منصوبے بھی ''مفادِ عامہ ''، تصور ہو سکتے ہیں۔ قانون اور اِس کی بنیاد پر دیگر قواعد حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا تقریباً مکمل اختیار دیتے ہیں کہ مفادِ عامہ کے دائرہ کار میں کیا کیا آتا ہے اور وہ لوگوں کو قواعد و ضوابط سے متعلق برائے نام حفاظتی اقدامات جو کہ عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کے برخلاف ہیں، کے ساتھ لوگوں کو بے دخل کر سکتے ہیں۔
سرکاری اکثر دعویٰ کرتی ہے کہ سرکاری زمینوں یا ریاستی املاک پر 'تجاوز'' کرنے والے ڈھانچوں کو ہٹانا انتہائی ضروری اور جائز عمل ہے۔ تجاوزات کئی صوبائی و علاقائی قوانین کے تحت ایک جرم بھی ہے، اور سزا پانے والوں کو جرمانوں یا یہاں تک کہ قید کی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
مگر ان کارروائیوں میں جبری بے دخل ہونے والوں کے انٹرویوز ظاہر کرتے ہيں کہ تجاوزات مخالف کارروائی کو بے دخلیوں کے لیے بطورِجواز استعمال کرنے میں باقاعدگی اور منطق کا عنصر بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر، بشیر حسین کا خاندان کراچی کی ایک مارکیٹ میں 70 برسوں سے دُکان چلا رہا ہے اور سرکار کی میونسپل کارپوریشن کو کرایہ، نیز یوٹیلٹی بل اور محصولات بروقت ادا کرتا ہے۔ مگر 2018 میں، حکام نے تجاوزات مخالف کارروائی کے طور پر حسین کے خاندان کی دُکان مسمار کر دی۔ اُنہوں نے کہا، ''میری دُکان تجاوزات کیسے ہو سکتی ہے؟'' ''1950 کے عشرے سے ہم حکومت کو کرایہ دے رہے ہیں۔ کسی عمارت کو کتنا عرصہ درکار ہے اس چیز کے لیےکہ اسے تجاوزات نہ سمجھا جائے؟ میرے خاندان کی تین نسلوں نے یہ دُکان چلائی ہے۔''
حکومتیں مفادِ عامہ کے لیے اور دیگر غیر معمولی حالات میں اراضی پر قابض ہونے اور لوگوں کو اُن کی جائیداد سے بے دخل کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ تاہم، یہ بے دخلیاں قانونی تب ہی ہو سکتی ہیں اگر یہ ملکی قانون اور انسانی حقوق کے عالمی قانون اور اصولوں کی مطابقت میں ہوں۔ عالمی قانون کے مطابق، '' جبری بے دخلی''، افراد، گھرانوں، کمیونٹیوں کو اُن کے گھروں، کاروباری مقامات، یا اراضی سے اُن کی مرضی کے بغیر مستقل یا عارضی طور پر بے دخل کرنا ہے، '' کسی قسم کے مناسب قانونی یا دیگر تحفظ کی فراہمی یا اُس تک رسائی کے بغیر۔''
ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ حکام لوگوں کے اراضی حقوق کے بارے میں پہلے سے جانچ پڑتال کرنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں اور اگر معاوضہ دیتے بھی ہیں تو بہت کم دیتے ہیں۔ بعض واقعات میں، پولیس مزاحمت کرنے والوں کو کسی قانونی جواز کے بغیر گرفتار اور اُن کے خلاف مقدمے درج کرتی ہے۔ ظالمانہ سلوک کی حوصلہ افزائی کرنے والے دیگر عوامل میں اراضی کے حصول میں بدعنوانی؛ ظالمانہ بے دخلیوں میں ملوث پولیس اہلکاروں کو استثنیٰ؛ اور اراضی کے اندراج کے ناقص طریقہ کار ہیں جن کی وجہ سے جبری بے دخلیوں کے متاثرین کے لیے ملکیت ثابت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے کہا ہے کہ کچھ پاکستانی حکام نے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی ہے؛ جنوری 2023 میں سندھ کی صوبائی حکومت نے سندھ نو آبادکاری و بحالیِ نو پالیسی 2022 منظور کی جو کہ پاکستان میں اس طرز کی پہلی پالیسی ہے۔ تاہم، حقیقی امتحان تو اس پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے ۔
مسٹر اعجاز کا کہنا تھا، '' پاکستانی حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوام کے فائدے کے لیے لائے گئے منصوبے لاگو کرتے وقت قانون کی مکمل پاسداری ہو''۔ '' کسی قسم کی ضروری نوآبادکاریوں کی منصوبہ بندی اور اُن پر عملدرآمد قانون کی روشنی میں اور اِس قسم کے طریقہ کار کے مطابق ہو جس سے لوگوں کے اقامت کاری، روزگار اور حفاظت کے حقوق محفوظ رہيں۔''
منتخب کردہ بیانات:
ناصرہ بی بی، ایک گھریلو ملازمہ، کو 2021 میں اسلام آباد کے مضافات میں اُن کے گھر سے بے دخل کیا گیا۔ وہ بیوہ ہیں اورر اپنے تین بچوں، عمر 8، 10، 11 سال کے ساتھ رہتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا:
میرے بچے سرکاری اسکول جاتے تھے جہاں اُن سے فیس نہیں لی جاتی تھی، مگر مجھے اسکول کی کتابوں، کاغذ قلم، اسکول کی وردی اور بیگ کے اخراجات برداشت کرنے پڑے تھے۔ ہمار اگھر گِرایا گیا تو اسکول کا تمام مواد ضائع ہو گیا کیونکہ وہ سب کچھ ملبے تلے دب گیا تھا۔ مجھے لاہور میں اپنی بہن کے گھر منتقل ہونا پڑا، اور ہفتوں کی منتوں اور التجاؤں کے بعد اُس علاقے کے اسکول نے میرے بچے داخل کیے۔ تاہم، ہمارے پاس اسکول کا سازو سامان نہیں تھا اور نہ ہی خریدنے کے لیے پیسے تھے۔ اسکول کا سازو سامان خریدنے کے لیے رقم ذخیرہ کرنے کے لیے مزید کئی ہفتے گزر گئے جس کے نتیجے میں میرے بچوں کے سالانہ امتحان کے داخلے کی حتمی تاریخ گزر گئی اور یوں اُن کا ایک سال ضائع ہو گیا۔
اپریل 2021 میں کالج کی طالبہ 21 سالہ ماریہ یعقوب نے دیکھا کہ کراچی میں گجر نالہ کے قریب اُس کا گھر گرایا جانے لگا ہے۔ گھر کے باہر بلڈوزر موجود تھے، اُنہوں نے سرکاری اہلکاروں سے کچھ وقت مانگا تاکہ وہ اندر جا کر اپنے مرحوم والدین کی تصویریں اُٹھا سکے۔ اُنہیں جلدی کرنے کا کہا گیا۔ گھر کا دیگر سامان اور اپنی کتابیں اکٹھا کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔ وہ اندر دیوار سے تصویر اتار رہی تھیں کہ اُنہیں بلڈوزر چلنے کی آواز سنائی دی۔ بہت بڑے زرد مشینی جبڑے نے دیوار کو ضرب لگا کر فوراً گرا دیا۔ ماریہ نے کہا:
مجھے چیخ و پکار (باہر سے) سنائی دی۔ تصویر کا فریم میرے ہاتھوں سے پھسل کر گر گیا۔ میں باہر کی بھاگی اور صرف اپنی زندگی بچا سکی۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہ بچا سکی۔
محمد انصر نویں جماعت کا طالب علم تھا جب 2016 میں لاہور میں اُن کا گھر مسمار کیا گيا اور خاندان کو کہیں منتقل ہونے پر مجبور کیا گيا۔ اُن کا کہنا تھا
میں ایک مقامی حکومت کے اسکول میں ایک ریگولر طالب علم کے طور پر زیر ِتعلیم تھا۔ ریلوے لائن کی تعمیر کے وقت ہمیں کہیں اور منتقل ہونے کو کہا گیا مگر ہمارےپاس لاہور میں رہنے کے لیے وسائل نہیں تھے جس پر مَیں ضلع شیخوپورہ (قریبی ضلع) چلے گئے۔ اگلے کئی مہینوں تک ہمارے پاس کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا کیونکہ میرے والد کی دُکان گرا دی گئی تھی۔ میرا والد، میرا بھائی اور مَیں دہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتے تھے، اور اب مَیں نے کسی اسکول میں داخل نہیں تھا۔ تب، مجھے ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی اور میری زندگی سے تعلیم کا باب بند ہو گیا۔ یہاں تک کہ اب بھی مَیں کبھی کبھی وہ وقت یاد کرتا ہوں۔
2020 میں کراچی میں بے دخل ہونے والی 46 سالہ عورت کا کہنا تھا:
میری والدہ بیمار ہیں۔ مجھے آدھی رات کے وقت اُنہیں اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ عام طور پر مَیں رِکشہ (موٹر سائیکل ٹیکسی) لے کر فوری طور پر اُنہیں وہاں لے جا سکتی ہوں۔ اِس وقت، ہم شہر کے وسط میں مقیم ہیں۔ اگر ہم دور دراز علاقے میں ہوں تو مَیں اپنی والدہ کو اسپتال کیسے پہنچاؤں گی؟
37 سالہ شبیر ایک کاشتکار ہیں جن کی کچھ ایکڑ اراضی 2022 میں ایک انفراسٹرکچر اور ہاؤسنگ منصوبے کے لیے مختص کی گئی۔ اُن کا کہنا ہے:
ہمیں اپنے گھروں، اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کے علاوہ اصل معاوضہ بھی نہیں دیا جا رہا۔ حکومت معاوضے کی رقم کے بدلے اراضی کے بہت پرانے نرخ لگا رہی ہے۔ میرے کھیت کی اصل قدر نہ صرف زمین ہے بلکہ فصلوں کی قیمت بھی ہے جو اس میں اُگتی ہیں اور میرے اہلِ خانہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔