(نیویارک 29 جنوری 2015ء) پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کی مذہبی اقلیتوں کو عدالتی نا انصافیوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں سے تحفظ کو یقینی بنائے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف پر تشدد حملوں میں سال 2014ء میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت مذہبی آزادی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
HRW کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فلم کائن (Phelim Kine) کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نے انتہا پسندوں کے ہاتھوں مذہبی اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اُٹھائے۔ حکومت اپنے سب سے بنیادی فرائض یعنی اپنے شہریوں کی حفاظت اور قانون کی عملداری میں ناکام رہی ہے۔
حکومت (Blasphemy) مذہبی بے حرمتی کے قانون کی مختلف دفعات میں ترمیم کرنے یا ان کو منسوخ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس سے مذہبی اقلیتوں پر تشدد کرنے کا جواز فراہم ہوتا ہے۔ 7 مئی 2014ء کو نامعلوم مسلح افراد نے انسانی حقوق کے نامور وکیل راشد رحمان کو (Blasphemy) کے ملزمان کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے لیکن بظاہرِ انتقام میں میں قتل کر دیا گیا۔ 16 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے آسیہ بی بی کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔ آسیہ بی بی کو مذہبی توہین (Blasphemy)کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس نے اپنے ہمسایہ کی مذہبی عصبیت کا چیلنج کیا تھا۔
اگست میں اپوزیشن لیڈر عمران خاں اور طاہر القادری نے اکثر حکومت مخالف مظاہروں جو کہ زیادہ تر پُرتشدد تھے کی نمائندگی کرتے ہوئے 2013 ء جنرل الیکشن کے استحقاق کو چیلنج کیا۔ ان مظاہروں کا عروج یکم ستمبر کو ہوا جب مظاہرین نے پارلیمنٹ اور حکومتی ٹی۔ وی چینل پر چڑھائی کر دی۔ حکومت نے ستمبر میں اعلان کیا کہ اُس سترہ سالہ انسانی حقوق کی عملدار اور نوبل پرائز حاصل کرنے والی ملالہ یوسف زئی پر 2012ء میں حملہ کرنے والے دس مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی انتہا پسند سزا کے خوف سے آزاد سرگرم رہے۔
16 دسمبر کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع پشاور کے سکول پر تحریک طالبان پاکستان نے خوفناک حملہ کیا۔ جس میں کم از کم 148 ہلاکتیں ہوئیں۔ جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ اس ظالمانہ حملے کے ردِ عمل میں وزیر اعظم نے سزائے موت پر چار سال سے جاری معطلی کو ختم کر دیا ۔ پاکستانی حکومت صوبہ پنجاب میں پہلے ہی پھانسی کی سزا پر عمل در آمد کو تیز تر کرنے کے سلسلے میں 16 دسمبر 2014ء کو جیل مقید 6 دہشت گردوں کو پھانسی دے چکی ہے۔
HRW کا کہنا ہے وہ صحافی جو دہشت گردی کی جوابی کارروائیوں کو Cover کرتے ہیں یا فوج پر تنقید کرتے ہیں اُن کو دھمکیوں کا سامنا ہے۔ اپریل میں کراچی میں نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے ٹی۔ وی پیش کار حامد میر کو شدید مضروب کر دیا تھا۔جس پر اُس کے مالک جیو / جنگ جو کہ ملک کا سب سے برا میڈیا گروپ ہے نے ڈائریکٹر جنرل ISI جو کہ ایک طاقتور ادارہ ہے پر الزام لگایا ہے۔
2014ء میں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی۔ بشمول عصمت دری، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب سے جلانے کے حملے۔گھریلو تشدد اور زبردستی کی شادیاں بدستور جاری رہیں۔ مذہبی انتہا پسندی اور تیزاب سے جلانے کے حملے بلوچستان میں تسلسل سے جاری ہیں۔
30جون کو شمالی وزیرستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف فوج نے جارحانہ کارروائی شروع کی۔ جس میں تیس ہزار (30000) سے زیادہ فوجیوں نے حصہ لیا۔ فوج کی جانب سے علاقہ جنگ میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے غیر جانبدارانہ ذرائع ابلاغ کے لیے عام شہریوں کی ہلاکتوں کا اندازہ مشکل ہو گیا۔ جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے اندازاً دس لاکھ لوگ غلیظ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔ جہاں حکومت پینے کے پانی اور حفظانِ صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جولائی میں حکومت نے تحفظ پاکستان ایکٹ نافذ کیا۔ جو کہ ایک انتہائی وسیع انسدادِ دہشت گردی کا قانون ہے۔ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اور سیکورٹی فورسز کو بلا خوف اختیارات کے ناجائز استعمال کا جواز فراہم کرتا ہے۔